محترم جسٹس گلزار احمد صاحب،
چیف جسٹس آف پاکستان۔
السلام علیکم،
محترم جان کی امان پائوں اور توہین عدالت کا مرتکب قرار نہ دیدیا جائوں تو کچھ عرض اپنا قانونی اور آٸینی حق سمجھ کر کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کی سماعت پر بارگراں نہ بنے۔
آپ نے کراچی میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا جسے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔اس حکم میں سڑکوں فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا فوری حکم دیا یا ساتھ ساتھ پارکوں اور نالوں پر قاٸم مارکیٹیں اور رہاٸشی مکانات ڈھا دینے کا حکم بھی دیا۔
آپ کے اس حکمنامہ کے زد میں ہزاروں کچے پکے مکانات اور دکانیں آٸیں اور یک جنبش قلم توڑ دی گٸیں، ہزاروں خاندان بے گھر اور بے روزگار ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہوگئے، لوگ بھوک سے مرنے لگے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے۔
آپ کے ان منصفانہ فیصلوں میں ان آبادیوں، دکانوں کو قاٸم کرنے والے مافیاز میں حکومت سندھ کے افسران، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (پرانا نام کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی)، کے ایم سی، ڈی ایم سیز، ضلعی انتظامیہ، کے ڈی اے، کنٹونمنٹ بورڈز، کے پی ٹی، ریلویز مختلف سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ تمام ادارے اور لوگ گزشتہ 74 سال سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اور برباد کر رہے ہیں لیکن تمام زمّہ دار اداروں کی آنکھیں بند ہیں، کسی ایک کو سزا نہیں ہوئی۔
جناب چیف جسٹس صاحب! ریکارڈ چیک کروا لیجئے، کراچی میں تجاوزات قاٸم کرنے، پلاٹوں پر قبضہ کرنے، کچی آبادیاں قاٸم کرنے، غیر قانونی پارکنگ کے پیسے وصول کرنے میں ایک منظم مافیا ملوث ہے، جو غیر مقامی لوگوں پر مشتمل ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران و اہلکار پیسہ وصول کرکے ان کی سرپرستی کر رہے ہیں کیونکہ ان کرپٹ افسران و اہلکاروں کا بھی اس شہر سے کوٸی تعلق نہیں۔ انہیں اس شہر کی تباہی سے کوئی غرض نہیں یہ صرف پیسہ بنانے اس شہر میں آئے ہیں۔
آپ سے اس شہر کے باسیوں کا سوال یہ ہے کہ ناجاٸز تعمیرات، تجاوزات، نالوں اور پارکوں پر دکانیں ان سب کی اجازت دینے اور سرپرستی کرنے والے کتنے افسران اہلکاروں کو آپ کٹہرے میں لائے! کتنے کرپٹ افسران کو نوکریوں سے فارغ کیا! کتنوں کو سزاٸیں دیں!۔
عدالتوں کا کام صرف آبزرویشن دینا اور اخباری بیان شاٸع کرانا نہیں۔ انصاف فراہم کرنے والوں کا کام بولنا نہیں عملدرآمد کرانا ہوتا ہے۔
کسی کا مکان، دکان توڑنے سے پہلے اسے متبادل مکان دکان فراہم کریں کیونکہ آپ کے انصاف کی لاٹھی کی زد میں زیادہ تر وہ غریب لوگ آرہے ہیں جن کا کل اثاثہ ہی وہ مکان اور دکان ہے جو توڑی جارہی ہے۔
آپ کا کام یکساں انصاف فراہم کرنا، آپ بنی گالہ کے محل ریگرلراٸز کردیتے ہیں لیکن انصاف غریب کے لئے خاص طور پر کراچی کے لوگوں کے لئے مختلف ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں خلاف قانون بنائے گئے مکان اور آبادیاں ریگولرائز کی جا رہی ہیں لیکن کراچی کے لئے انصاف کے پیمانے جداگانہ ہیں۔
کراچی کی نسلہ ٹاور نامی عمارت کو آپ نے بم سے اُڑانے کے احکامات صادر فرمادیئے ہیں، کیا یہی احکامات آپ ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کی غیر قانونی تعمیر شدہ عمارات کے لئے بھی دینے کی جراّت کر سکتے ہیں۔
نسلہ ٹاور گراٸیے، بم سے اُڑا دیجیۓ ۔کراچی کی تمام ناجاٸز تعمیرات پر بمباری کروادیجیۓ کیونکہ کراچی کے ساتھ بس یہی ہونا باقی ہے۔ لیکن یہ عمارت گرانے سے پہلے مکینوں کو معاوضہ دلوائیے۔ لیکن اصل زمہ داران کرپٹ حکومتی اداروں اور اہلکاروں کے خلاف اقدامات کے بجاۓ صرف بیان بازی تک محدود رہیں۔
کراچی میں آج بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ عناصر کی سرپرستی میں سینکڑوں عمارتوں کی دھڑلے سے تعمیر جاری ہے، انسداد تجاوزات کا محکمہ تجاوزات ہٹانے کے بجائے تجاوزات لگوانے کا کام کر رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اپنے فراٸض ادا کرنے کو تیار نہیں۔ چارج پارکنگ کا محکمہ، پولیس، ٹریفک پولیس غیر قانونی پارکنگ مافیا کی سرپرست ہے۔ سندھ حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کراچی پر مسلط ہے پر عدلیہ کا انصاف صرف بیان بازی تک ہے۔
چیف جسٹس صاحب اللہ تعالی’ نے آپ کو عزت، اختیار اور طاقت عطا فرمائی ہے لیکن آپ کو بھی اس کاٸنات کی سب سے بڑی عدالت رب تعالی’ کی عدالت میں ان سب چیزوں کا حساب اور جواب دینا ہے اس کی بھی تیاری کرلیں۔ مظلوموں کی ہاۓ نہ لیں۔
اپنی ریٹاٸرمنٹ سے پہلے کچھ اچھے اور دلیرانہ فیصلے کرجاٸیں کہ عوام پچھلے چیف جسٹس کی طرح برے ناموں سے نہ یاد کریں۔
والسلام
محمد احمد شمسی
جنرل سیکٹری آل سٹی تاجر اتحاد ایسوسی ایشن