کراچی: مال مفت دل بے رحم، سندھ کے خزانے کے ساتھ حکومت سندھ کی بے حسی سامنے آگئی۔ سندھ کابینہ اجلاس میں سندھ کی عوام کی محنت پسینےکی کمائی کے 7.2 ارب روپے جھونک دیئے گئے۔
سرکاری اداروں کو معاف کئے گئے قرضوں پر صوبے کے باشعور عوام کے ذہن میں کئی سوالات اٹھادیئے۔
اربوں روپے کے قرضوں کا ریکارڈ کس نے گُم کیا کچھ پتہ نہیں اور قرضوں کی وصولی کو چھوڑیں معاف ہی کردیتے ہیں۔ سندھ کابینہ نے دریا دلی دکھاتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے کے الیکٹرک اورسوئی سدرن گیس کمپنی جیسے اداروں کا بھی قرضہ معاف کیا گیا۔
عوامی رائے کے تحت یہ ادارے کسی صارف کا ایک سو روپے بل معاف نہ کریں لیکن ان کے کروڑوں روپے کے قرضے معاف کردیئے گئے۔
قرضوں کا ریکارڈ گُم ہونے پر نہ انکوائری کمیٹی بیٹھی نہ ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکا اور ریکارڈ کس محکمے سے کیسے گم ہوا اس کی تحقیقات تک نہ ہوئی؟۔ ریکارڈ گم ہونے پر نہ تو ملازمین یا افسران کو غفلت کا مرتکب پایا گیا نہ سزا ملی۔ رکارڈ گم ہونے کی صورت میں مقروض اداروں سے بھی تفصیلات لی جاسکتی تھی۔
محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق قرضے 83-1982 سے 13-2012 تک سرکاری محکموں اور اداروں کو دیئے گئے۔ 7.2 ارب روپے کے قرضوں کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) اور ذیلی کمیٹی برائے خزانہ کی سفارش کے مطابق معارف کیا جا سکتا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ مالی سال 83-1982 سے 93-1992 کے دورانیے میں پرائیویٹ پارٹیز کو 174.863 ملین قرضے دیئے گئے جوکہ طویل عرصے سے بقایا تھے جس کا ریکارڈ نہ تو ٹریس کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حصول ممکن ہے۔ کابینہ نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور سرکاری محکموں کے خلاف بقایا 7,20,42,80,508 روپے کے قرض کی تحریری منظوری دی جبکہ محکمہ خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ نجی تنظیموں/ پارٹیز کو دیئے گئے 174863627روپے کے قرض کی انکوائری کرے۔ جن قرضوں کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ان میں سندھ کوآپریٹو بینک 27.5 ملین روپے، محکمہ جنگلات 4.5 ملین روپے ،حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) کے 62 ملین روپے، ایچ اے ڈی 1.4 ارب روپے، سندھ شوگر کارپوریشن 40.12 ملین روپے، سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن(ایس آر ٹی سی) کے 666.35 ملین روپے، ایس آر ٹی سی 200 ملین روپے، کے ٹی سی 249.2 ملین روپے، کے ٹی سی 253.2 ملین روپے، محکمہ بلدیات نوشہروفیروز کی تنخواہوں کیلئے 30 ملین روپے، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ 263.48 ملین روپے، کوٹڑی سرفیس ڈرین 26.18 ملین روپے، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن 450000 روپے، ڈی سی او تھرپارکر 44,895 روپے، کے ڈی اے 839.86 ملین روپے، کے ڈی اے 221.13 ملین روپے، واپڈا 162.01 ملین روپے، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور 900,000 روپے، محکمہ خوراک 9.52 ملین روپے، کوٹڑی سرفیس ڈرین 4.39 ملین روپے، کراچی واٹر اینڈ سرور (کے ڈبلیو ایس بی)، 2.55 بلین روپے اور ڈی سی او حیدرآباد 682.1 ملین روپے شامل ہیں۔