تحریر: راجہ فیاض
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو- ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں , مگر تمہیں شعور نہیں”- [سورتہ البقرہ۔آیت#154]۔۔۔
وہ بہت خوش نصیب تھا عید کے دن پیدا اور عید ہی کے دن شہداے کربلا اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم سنت کو پورا کرتے ہوے اپنے زخموں سے چور چور بدن کے ساتھ رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نے 1948 کو پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا اور سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے، باڑ کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا اور دشمن چوکی چھوڑ کر بھاگ گیا۔
پنجاب کے ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان ناچیز کے آباو اجداد اور وطن کی خاطر جان نچھاور کرنے اور پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجہ سرور شہید اور لائنس نائیک محمد محفوظ شہید نشان حیدر کی سرزمین ہے، ارض پاک کے اس ٹکڑے پر رہنے والے اللہ کے شیروں نے وطن عزیز کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ گوجر خان کی دھرتی اپنے سینے پر 2 نشان حیدر کا اعزاز سجا کر پورے پاکستان میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور جہاں یہ سرزمین گوجرخان دو نشان حیدر کی حامل ہے وہیں اس دھرتی میں غازیوں اور دیگر شہدائے پاکستان کی کمی بھی نہیں ہے، آرمی پبلک سکول پشاور میں اپنے فرائض انجام دینے والا ندیم الرحمن انجم شہید ہو یا 1965ء کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والا سپاہی چودھری محمد اکثر شہید، نائیک کامران عزیز شہید ہو یا حوالدار شاہین طارق شہید، نائیک عمران ظفر شہید ہو یا مرزا عبدالقیوم شہید، لانس نائیک مطلوب حسین شہید ہو یا حوالدار محمد حسین شہید، محمد حلیم شہید ہو یا کمانڈو شاہد شہید، محمد نعیم شہید ہو یا طاہر محمود شہید، کیپٹن عثمان شہید یا پھر بقید حیات غازی تحریک آزادی پاکستان منبصدار خان، تحریک آزادی سے لے کر اب تک وطن عزیز کا دفاع کرنے والے شہیدوں اور غازیوں میں سے ہر ایک نے تاریخ رقم کی ہے اور دھرتی پاکستان اور گوجرخان کا سر ہمیشہ سربلند رکھا۔
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کی یادگار تھانہ مندرہ کی حدود میں واقع ہے، جن کا علاقہ سنگھوری سرور شہید کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں پر شہید کی یادگار بہت زبردست انداز میں بنائی گئی ہے جہاں پر ہر سال 6 ستمبر کو تقریب ہوتی ہے اور پاک فوج کے چاق و چوبند دستے سلامی دیتے ہیں، سرور شہید کے فرزند راجا صفدر نے شہید کے نام کو روشن رکھا، اب شہید کے پوتے میجر راجا عدیل سرور بھٹی دادا کے نام کو لے کر آگے چل رہے ہیں، جبکہ سوار محمد حسین شہید کا مزار دولتالہ میں واقع ہے جو کہ تھانہ جاتلی کی حدود میں واقع ہے، جہاں پر ہر سال 6 ستمبر کو تقریب منعقد ہوتی ہے اور پاک فوج کے افسران حاضری دیتے ہیں، اہل علاقہ پاکستان کے قومی دنوں پر ان شہداء کی یادگاروں اور مزارات پر حاضری دے کر حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہیں، 1948ء ہو 1965ہو، 1971ء ہو یا پھر فروری 2019ء دشمن کو پسپا کرنے میں مسلح افواج اور دھرتی کے بہادر سپوتوں نے جس جوانمردی کا مظاہرہ کیا۔
راجہ محمد سرور، پاک فوج میں کپتان تھے۔ یہ تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں سنگھوڑی میں 10 نومبر 1910 میں ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام راجا محمد حیات خان تھا۔ پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجا محمد سرور شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول دسوہہ فیصل آباد سے حاصل کی۔ 1929ء میں انہوں نے فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔ 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد انہوں نے برطانیہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔ 27 جولائی 1948ء کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔
کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہوچکا تھا، اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا۔
دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی، مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں 27 اکتوبر 1959ء کو انہیں نشانِ حیدر کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا، انہیں پہلا نشانِ حیدر پانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدر پاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔