تحریر: ولید رمضان
کوئلے کی کان کے پاس کسی کسان کے کھیت تھے۔ کسان کا بیٹا روزانہ کھیتوں کو پانی دیا کرتا، کھیتوں کی دیکھ بھال کے بعد جو وقت بچتا اس میں وہ کان تک گاڑیاں پہنچانے میں مزدوروں کی مدد کیا کرتا تھا۔
ایک دن کان کے مالک نے دیکھا کہ ایک کسان اپنا کام چھوڑ کے مزدوروں کی گاڑیاں کیچڑ سے آگے کان تک پہنچانے میں مدد کر رہا ہے۔ اسے حیرت ہوئی کہ لوگ تو اپنے ذمے لگا ہوا کام بخوبی سر انجام نہیں دے پاتے یہ کان کے مزدوروں کی مدد کیوں کر رہا ہے؟۔
مالک نے کسان کے بیٹے کے پاس جا کر پوچھا کہ تمہیں کون یہ کام کرنے کو کہتا ہے؟۔ لڑکے نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی بھی نہیں کہتا، میں اپنی مرضی سے کان کی جانب جانے والے مزدوروں کی مدد کرتا ہوں۔ مالک یہ سن کر چلا گیا اور اپنے آفس ٹائم کے ختم ہونے کے بعد جاتے جاتے اس نے لڑکے سے کہا کہ کل اپنا کام ختم کر کے میرے آفس میں آنا۔
لڑکا ڈر گیا وہ سمجھا کہ شاید میں نے ان کے کاموں میں دخل اندازی کرکے کوئی غلطی کی ہے اور اب وہ پچھتانے لگا کہ جو کام میرے ذمہ نہیں لگایا گیا تھا وہ کام میں کیوں کرتا رہا۔
کانپتے جسم کے ساتھ وہ اگلی شام آفس میں داخل ہوا اور مالک نے دیکھا کہ وہ بڑا گھبرایا ہوا ہے، اس نے پوچھا تم کیوں ڈر رہے ہو؟ گھبرانے کی تو کوئی بات نہیں، آو یہاں بیٹھو۔
لڑکے تمھیں پتہ ہے کہ یہاں میرے پاس ہزاروں لڑکے کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کر لیں وہ بھی ٹھیک طرح سے، مالک نے اپنی بات کا آغاز کیا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے اپنے آفس میں ایک ایسے لڑکے کو بلایا ہے جو بغیر کسی کے کہے کام کرتا ہے اور وہ بغیر کسی اجرت، غرض یا لالچ کے یہ جو خوبی تم میں موجود ہے اسے ‘انیشیٹو’ کہتے ہیں۔ اگر تمہاری یہ عادت باقی رہی تو تم زندگی میں ایک دن بڑی پوزیشن حاصل کرو گے۔ میرے پاس تمھارے لیے آفر ہے کہ تم میرے ساتھ کام کرو۔ مالک نے اسے کام کی پیشکش کی، اس کے اچھے کام پر شاباش دی چائے پلائی اور رخصت کردیا۔
آج اس لڑکے کی زندگی کا خوشگوار دن تھا۔ اسے سراہا گیا تھا۔ اس کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی گئی تھی اور اسے مستقبل کے لیے کامیابی و ترقی کے راستے کی طرف بلایا گیا تھا۔ لڑکے نے لیبر کی جاب سے کام کا آغاز کر دیا اور اس دوران وہ اپنی ‘انیشیٹو’کی عادت سے لوگوں کے دل جیتتا رہا۔ پانچ سال کے عرصے میں یہ لڑکا اپنی محنت اور ‘انیشیٹو’ کی اس عادت کے سبب جنرل مینیجر بن گیا۔ ایک ہزار سے زیادہ لوگ اس کے ماتحت کام کرنے لگے اور وہ امریکہ کا نوجوان ترین جنرل مینیجر قرار دیا گیا۔ اس کی فیکٹری کے تمام لوگ اس کو پسند کرتے اور اس پر اعتماد کرتے تھے۔ اس نے اپنے پے ونڈو پر لکھوایا ہوا تھا جو کوئی ‘انیشیٹو’ لیتا ہے قدرت اسے عزت اور دولت دونوں خزانوں سے نوازتی ہے۔
سادہ لفظوں میں ‘انیشیٹو’ سے مراد وہ کام جو آپ کے ذمے ہوں یا نہ ہوں آپ بھلائی کی نیت سے بغیر کسی غرض کے بغیر کسی کے کہے کریں۔ یہ وہ عادت ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے لیکن اس عادت کے مالک لوگ دنیا کے مفید لوگوں کی صف میں کسی نہ کسی انداز سے آہی جاتے ہیں۔
وکٹر ہوگو کے مطابق “کسی مفید کام کو بغیر کسی کے کہے کر دینا ‘انیشیٹو’ کہلاتا ہے۔ ‘انیشیٹو’ کے بغیر لیڈر لیڈرشپ پوزیشن پر صرف ایک ورکر کی حیثیت رکھتا ہے۔
آج کے اس دور میں ‘انیشیٹو’ کی بہت کمی ہے اگر ہر کوئی ‘انیشیٹو’ کرنے لگے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ ‘انیشیٹو’ دراصل کامیابی کا ایک راز ہے اس راز کو آپ بھی اپنائیں اور اپنی زندگی میں اس کا میجک دیکھیں۔