تحریر: حنیف چوہان
ساﺅتھ انڈین والے مارول کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اوبڑ کھابڑ فلمیں بنانے میں وہ ان سے آگے نکل سکتے ہیں۔
حالیہ الیکشن میں مودی کو متوقع کامیابی نہیں ملی۔ اس کے باجود دھارمک فلمیں اب بھی سامنے آرہی ہیں تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ فلمیں کئی سال پہلے سے بننا شروع ہوچکی تھیں۔ 2024 کے انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اس حلقے سے بھی بدترین شکست کا سامنا کرچکی ہے۔جس حلقے میں رام مندر کی تعمیر کی گئی اور جس کا افتتاح الیکشن سے پہلے محض اس لئے کیا گیا کہ مودی کو اس بار الیکشن جیتنا ہی رام مندر کے بھروسے پر تھا۔ مودی اسے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے انھوں نے کسی بھی رکاوٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رام مندر کا افتتاح کیا حالانکہ ابھی اس کی تکمیل ادھوری تھی۔ یعنی مودی نے مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے ایسی گراوٹ کا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ حالیہ بارشوں میں نو تعمیر شدہ رام مندر کی چھت ٹپکنے لگی ہے اور اس کے احاطوں میں جگہ جگہ اتنا پانی کھڑا ہوچکا ہے کہ بھگتوں کو پوجا کرنے سے جزوی طور پر روک دیا گیا ہے۔
مودی حکومت انڈیا کی وہ پہلی حکومت ہے جس نے میڈیا کو اپنی ریشہ دوانیوں اور اپنے گندے مفادات کے لئے کچھ ایسی بے رحمی سے استعمال کیا کہ ہر طرف سے مودی کی حکومت اور مودی کی تعریفوں کے ڈھول بجتے سنائی دیتے تھے۔ حکومت نے اپنے امیج کو مذید جنتا پر تھوپنے اور مسلط کرنے کے لئے پروپیگنڈہ فلمیں بھی بنوائیں کہ جن میں ہندو دھرم کے حوالے سے ایسی ایسی کہانیاں پیش کی گئیں جن کا عقل اور منطق سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ کچھ پروپیگنڈہ فلمیں کامیاب بھی ہوئیں خاص طور سے وہ فلمیں جن میں مسلمانوں پر رکیک الزامات لگائے گئے اور یہ ظاہر کیا گیا کہ مسلمان ہندو دھرم کو نقصان پہنچانے کے لئے ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بناتے اور ان سے جبراً شادیاں کرتے ہیں (ایسا الزام پاکستان میں ہندوﺅں کے حوالے سے ہمارے ملک کے زور آور مسلمانوں پر بھی لگتا رہا ہے)۔
ایسی شادیوں کو ہندو ‘لو جہاد’ کا نام دے کر مسلمانوں پر غیر منصفانہ اتیا چار کرتے ہیں۔ کچھ فلم میکرز نے مودی میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر یہ سمجھ لیا کہ جنتا کافی شدت سے ہندو دھرم پر عمل پیرا ہے۔ لہٰذا دھارمک فلمیں لازمی بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ بدلے میں ان کی تجوریاں لبالب بھر جائیں گی۔ لیکن ایسا بیشتر فلموں کے ساتھ نہیں ہوا اکثر فلمیں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئیں اور یہ بات کسی نہ کسی تناسب سے تسلیم کرلی گئی کہ دھرم کے نام پر لوگوں کو کچرا فلمیں دیکھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ فلم چاہے جس بھی ٹاپک پر بنے۔ فلم کو اپنے آپ میں معیاری ہونا اس کا پہلا تقاضا ہے۔ حالانکہ مودی حکومت نے بعض سیاسی نوعیت کی فلموں کے لئے اس حد تک گھٹیا پنے کا ثبوت دیا کہ ‘کشمیر فائلز’ جیسی فلموں کے لئے لوگوں کو دفاتر اور مختلف شعبوں سے چھٹیاں دی گئیں، ٹکٹ بھی مفت میں فراہم کئے گئے تاکہ لوگ فلم کو کسی بھی وجہ سے دیکھنے سے انکار نہ کریں۔ چنانچہ ایسی فلوں کو کامیاب بھی قرار دیا گیا۔
دھارمک فلمیں زیادہ تر رامائن اور بھگوت گیتا اور مہابھارت کے ادوار میں یا ان کہانیوں کے کرداروں پر بنائی جاتی رہی ہیں اور یہاں فلم میکرز کو اس وقت بے بس ہونا پڑتا ہے جب ان ادوار میں بھارت میں تو کیا دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلام اور مسلمان دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں سے نفرت بڑھانے اور ہندو مسلمان کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کے مودی منصوبے کے حوالے سے ایسے فلم میکرز موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہتے تھے۔غالباً اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نئی جنریشن کو دھرم سے ایسی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
مودی حکومت میں تواتر سے ایسی دھارمک فلمیں بنائی جاتی رہیں جس کا تسلسل موجودہ یعنی 27 جون کو ریلیز ہونے والی فلم ‘کالکیKalki 2898 AD’ بھی ہے۔ یہ فلم اس کے باجود دھارمک منظر نامے سے باہر نہیں نکل پاتی کہ اسے مستقبل میں ہزاروں برس آگے لے جایا گیا ہے۔ جہالت کی انتہا اور قدیم سوچ سے چمٹے رہنے کی غیر عقلی صورت حال یہ دکھائی گئی ہے کہ مہا بھارت کے کردار اب تک زندہ ہیں۔ جیسے امیتابھ بچن ایک ایسا ہی کردار ہے جو چھ ہزار سال سے زندہ ہے اور اب بھی اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ کبھی مر ہی نہیں سکتا۔
(کوئی بے وقوف بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ ہندوﺅں کو کتنے ہی برسوں تک غیروں کی حکومتوں کی رعایا بن کے رہنا پڑا، جن میں مسلمان اور انگریز دونوں شامل ہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار ان کی مدد کو کبھی بھی کیوں نہیں آیا۔ اور اب جب آیا ہے تو اس لئے کہ دپیکا پڈوکون ایک ایسے بھگوان کو جنم دینے والی۔ جسے ایک طاقت ور گروپ پیدا ہونے سے پہلے مار دینا چاہتا ہے۔ (ایک تو بھگوان کو ایک کمزور عورت کے پیٹ سے جنم لینے کی ضرورت کیا ہے۔ دوسرے بھیا بھگوان کو کوئی بھی انسان کیسے مار سکتا ہے۔؟) اس قسم کے جاہلانہ خیالات اور واقعات سے اٹی ہوئی اس بے سروپا اور بے دماغ فلم کو دیکھنے کے لیے غیر معمولی طور پر عقل سے ماورا ہونا پڑتا ہے۔ باقی فلم کی تیکنیکس کا حال یہ ہے کہ کالے، پیلے موٹے بھدے ساﺅتھ انڈینز نے ‘مارول’ کی اوبڑ کھابڑ، بکواس، عقل سے خالی فلموں کی مارکیٹ کو ہندوستان سے اکھاڑ پھینکنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے انھیں یہ چنوتی دی ہے کہ ‘تم کیا ہندوستان کی جنتا کو ‘چ’ بناﺅ گے۔ یہ کام تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید کالکی والے اس مقصد میں بھر پور انداز سے کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور گورے انھیں بدستور بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
دیپکا نے اپنی پوری فلمی تاریخ میں سب سے بکواس کردار یہی ادا کیا ہے۔ سوائے پیٹ میں بھگوان کو لے کر گھومنے کے اس سے اور کوئی کام نہیں لیا گیا۔ حالانکہ باقی عورتیں پھر بھی کچھ نہ کچھ مار دھاڑ کے مناظر فلماتی دیکھی گئی ہیں۔ پربھاس (بہو بلی کا ہیرو) مذکورہ فلم میں ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ کمل حسن کے دو یا تین سینز ہیں اور وہ سپریم ہوتے ہوئے بھی اتنے کمزور ہیں کہ انھیں بھی دیپکا کے بچے کی ایک بوند سے طاقت ملتی ہے۔ میڈ میکس، گیم آف تھرونز، اسٹار وارز، لارڈ آف دی رِنگز، ایونجرز اور یہاں تک کہ مقامی دیوتا پرست ‘ادی پرش’ کی تیکنیکس اور لوکیشنز بھی بے دریغ استعمال کی گئی ہیں۔ اس لئے ان فلموں کو دیکھنے والے فلم بینوں کو بھاری مایوسی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
انڈیا کی جنتا نے جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی کو الیکشن میں سبق سکھایا ہے۔ اسی طرح اگر دھارمک، غیر عقلی، منطق سے خالی ‘کالکی’ جیسی فلموں کو بھی دھول چٹادی جائے تو کم سے کم اس کے بعد کوئی اور ایسی کوشش کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ جبکہ کالکی کا سیکیوئل واقعتًا فلم بینوں کے اس سلوک پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کالکی کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں!۔