پاکستانی ڈرامے اور ہمارا معاشرہ

0
71

بنتِ پاکستان کے قلم سے: شازیہ عالم شازی

میں عموماً ڈرامے بہت کم ہی دیکھا کرتی ہوں مگر گزشتہ دنوں ایک ڈرامہ کا ٹریلر دیکھ کر اسے دیکھنے کی رغبت پیدا ہوئی تو دیکھا کہ ہمارا میڈیا اب اتنا آزاد ہوگیا ہے کہ وہ لوگوں کو خصوصاً بوڑھے والدین کو سفاکی سے قتل کرنے کے نا صرف طریقے دکھانے لگا ہے بلکہ قتل کے بعد مطمئین اور پرسکون گزارنے کے کے گرُ بھی سکھانے لگا ہے۔ میں نے سنا تھا موجودہ ڈراموں کا کلچرل کمرشلزم کے نام پر بیہودہ ہوگیا ہے مگر اس قدر سفاک بھی ہوگیا ہے اس کا اندازہ مجھے قطعی نہیں تھا۔

میڈیم اور میڈیا کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے معاشرے کی تشکیل میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے ایک وقت تھا جب پاکستانی ٹیلیوژن بھرپور تفریحی پروگرامز پیش کرنے کے باوجود قومی، تہذیبی، اخلاقی اور ثقافتی (کس حد تک اسلامی) اقداروں میں دوسرے ممالک (خاص کر پڑوسی ملک) کے میڈیا سے کہیں آگے کھڑا نظر آتا تھا۔ آج ہم اگر بحیثتِ قوم یعنی پاکستانی قوم کی بات کرتے ہیں تو ہم ہر لحاظ سے سیاسی، مذہبی، تہذیبی، علمی، اخلاقی اور عدالتی اعتبار سے مکمل طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں دیگر عوامل کے ساتھ اس کا تمام تر ذمہ دار ہمارا میڈیا ہے۔ ہمارے ٹاک شوز، ہمارے ڈرامے پاکستانی معاشرے کے لیئے بدنما داغ بنتے جا رہے ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟ ہمیں کیا دکھایا جارہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور اور معاشرے کے ذمہ دار فرد کو سوچنا بلکہ اسکا سدباب ڈھونڈنا ہے۔

گزشتہ پانچ چھ سالوں سے ڈراموں میں بےحیائی کو فروغ دیا جاتا رہا پھر کچھ یہ وبا عام ہوئی تو مغربی معاشرے کی طرح طلاق خلع اور اس جیسی کئی گھٹیا اور قبیہہ قسم کی رسومات کو عام کیا جانے لگا پھر اس پر بھی تماشہ ختم نا ہوا تو اب قتلِ عمد اور اقدامِ قتل کے مناظر جلوہِ اسکرین پر نمودار ہونے لگے ہیں میری نظر سے جو ڈرامہ گزرا اس میں ایک بوڑھی بیمار عورت جو ایک ماں ہے اسے اس کی بہو ضرورت کے وقت جان بوجھ کر دوائیں فراہم نا کرکے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس کے بغیر مر بھی سکتی ہے) اس کے قتل کا سامان کردیتی ہے۔

اس ڈرامے میں اس سفاک قتل کے منظر کو اس قدر عام طریقہ سے دکھایا گیا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوا اور قتل کے بعد اُس قاتل کو جس قدر مطمئین اور پرسکون دکھایا جاتا رہا اس کی نظیر نہیں ملتی۔۔خ میں سوچتی ہوں کہ اب ڈرامے اور ڈکیتی کی واردات میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ ڈکیت بھی تو چند ہزار کے موبائل کے لیئے کسی کی بھی جان لے لیتے ہیں تو یہاں بھی یہی ہوا کہ کسی کی جائیداد پر قبضہ کے لیئے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ادب ہمارے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے لیکن معاف کیجئے گا یہ جو کچھ آج کل ادب کے نام پر لکھا جا رہا ہے یہ ہمارے معاشرے کا عکس نہیں۔

ہمارے معاشرہ کے 80 فیصدی خاندان آج بھی خاندانی روایات سے جڑے ہوئے ہیں ہمارے یہاں آج بھی والدین اور خاندان کے دیگر بزرگوں کا احترام موجود ہے۔ تو پھر یہ ڈرامے ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔؟؟
اب میں ایک بار پھر اپنے سوالات دہراتی ہوں
ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟
ہمیں کیا دکھایا جارہا ہے؟
آپ اس میں ایک سوال کا اضافہ اور کرسکتے ہیں
یہ ہمیں کیوں دکھایا جارہا ہے۔؟
یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جس کی جانب قوم کو توجہ کرنی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں