وہ چلے گئے۔۔ ۔ تو کیا ہوا؟

0
77

تحریر: علی رضا بھٹی

دو ملک ایک ساتھ آزاد ہوئے مگر دونوں کی کہانی الگ۔ ایک چاند پر کامیاب لینڈنگ کر چکاہے تو دوسرا 33 سال سے آئی ایم ایف کے آگے کشکول اُٹھائے کھڑا ہے۔ ایک ملک کی عوام دنیا بھر کی آئی ٹی انڈسٹری پر اپنی اجارہ داری قائم کر چکی ہے اور دوسرے کی نوجوان نسل بہتر مستقبل کے لیے اپنے ملک سے باہر جانے کے لیے دھڑا دھڑ ویزے لگوا رہی ہے، یہ المیہ ہے۔ وطن عزیز کو یوں تو آزاد ہوئے 76 برس بیت گئے لیکن اس کے حالات دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس پر آسیب کا سایہ ہے۔ یہاں آنے والے ہر حکمران نے اپنی قسمت تو بدل لی لیکن عوام کی حالت ذرا بھی نہ بدلی۔ ہر گزرتا دن عوام کے لیے ایک نیا امتحان ثابت ہو رہا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بُری خبر سننے کو ملتی ہے۔ اور یہ بُری خبر جب ہمارے حکمرانوں کے سامنے رکھی جائے تو بڑے ڈھیٹ بن کر کہتے ہیں ‘تو کیا ہوا’، واہ۔۔ ۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں کہ اس ملک کی نوجوان نسل لاکھوں کی تعداد میں باہر جا رہی ہے۔

جنابِ وزیر اعظم آپ کو بھلے پرواہ نہ ہو لیکن بحیثیت پاکستانی میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کی آبادی کا 29 فیصد نوجوان اس ملک کے حالات سے مایوس ہوچکا ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ 29 فیصد کتنا ہوتا ہے؟ 25 کڑور کی آبادی ہے تو اس ملک کے 18 سال سے 34 سال تک کی عمر رکھنے والے 8 کروڑ نوجوان ہیں۔ جی درست سنا آپ نے 8 کروڑ نوجوان! کبھی سنا کرتے تھے کہ اتنے ہزار بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک گئے ہیں لیکن آج ہر مہینے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بیرون ملک جانے کے لیے ویزہ آفسزز اور پاسپورٹ کے دفاتر کے باہر لائنوں میں لگے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو اس ملک کی جی ڈی پی کی گروتھ کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ڈھیلا سا منہ بنا کر کہہ دیا کہ یہ معمار باہر جا رہے ہیں ‘تو کیا ہوا’؟

وزیر اعظم کے جواب سے مجھے اس عوام کا خیال بھی آ گیا جو سڑکوں پر بِل پکڑ کر سراپا احتجاج ہیں۔ ان میں شدید غم و غصہ ہے یہ کہیں پر واپڈا دفاتر کا گھیراؤ کرکے توڑ پھوڑ کر رہے ہیں تو کہیں یہ ہاتھ آنے والے سرکاری ملازمین کی درگت بنا کر اپنا غم و غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کیا آپ کے علم میں ہے کہ 500  روپے دیہاڑی کمانے والے کو بھی 12000 کا بِل بھیجا گیا ہے۔ وہ یہ بِل کیسے بھرے گا؟ چلیں فرض کر لیں وہ یہ بِل بھر بھی لے تو اپنا سارا مہینہ باقی کے بچنے والے 3000 سے کیسے گزارے گا؟ تو کوئی بات نہیں آپ کہہ دیں تو کیا ہوا؟ اس غریب نے ایک مہینے کا راشن کہاں سے خریدنا ہے؟ آپ نے تو کہہ دینا ہے کہ کیا ہوا؟ اس کے بچے بھوکے بھی سولیں گے تو کیا ہوا؟ جناب وزیر اعظم صاحب لوگ بِل لے کر در در کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو وُوٹ دینے والا ٹرین کی پٹریوں پر کھڑے ہو کر رحم کی بھیک مانگ رہا ہے کہ ہم پر رحم کریں ورنہ یہیں جان دے دوں گا۔ ویسے وزیر اعظم صاحب اگر اس نے ٹرین کے نیچے آ کر خود کشی کر بھی لی تو پھر بھی آپ یہی کہیں گے کہ ‘تو کیا ہوا’؟

کیا یہ بات آپ جیسوں کے نوٹس میں ہے کہ بے روزگاری کی بلند ترین سطح رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان  24 ویں نمبر پر آ گیا ہے کوئی بات نہیں۔ مبارک دیں اور کہہ دیں تو کیا ہوا؟

یہ ملک کرنسی کے اعتبار سے 32 ویں نمبر پر آگیا ہے جناب وزیر اعظم صاحب ایک ڈالر 300 روپے کو کراس کر گیا ہے۔ اس پر بھی آپ کہہ دیں تو کیا ہوا؟ آج ہر پاکستانی حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کی بنیاد پر ساڑھے 3 لاکھ فی کس کا مقروض ہے تو پھر  کہہ دیں نہ کہ تو کیا ہوا؟ آپ اور آپ کے پیش رواؤں کے لیے پیٹرول، بجلی، کچن سب فری ہے تو آپ کو عام آدمی کی فکر کیوں ہونے لگی۔
فیکٹری یا دفتر جانے والا جب 293 روپے کا لیٹر پیٹرول اپنی موٹر سائیکل میں ڈلوا کر کام پر جائے گا اور پیٹرول ڈلوا کے جن الفاظ میں آپ کو یاد کرے گا تو آپ تو کہیں گے ہی کہ تو کیا ہوا؟ ملکی معیشت آخری سانس لے رہی ہے آپ سب کہہ رہے ہیں تو کیا ہوا؟۔

وزیر اعظم صاحب اس ملک کا کسان آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے خود کشیاں کر رہا ہے۔ خواتین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے زہر دے کر غربت سے آزاد کر رہی ہیں۔ جنا ب وزیر اعظم ایک بار پھر کہہ دیں تو کیا ہوا؟ کاکڑ صاحب اس ملک کی ہزاروں خواتین کو زچگی کے دوران مناسب خواراک نہیں ملتی۔ سینکڑوں خواتین روزانہ ہسپتالوں کے دروازوں میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ کیونکہ ان کے لیے تو بیڈز دستیاب ہی نہیں۔ یہ ہمارے لیے تو شرم کی بات ہے لیکن جناب آپ کہہ دیں تو کیا ہوا؟

میرے ملک میں دہشتگردی پھر نوجوان نگلنے لگی ہے حضور آپ سلامت رہیں کوئی بات نہیں۔ کہہ دیں کہ کوئی بات نہیں ہو رہی ہے تو کیا ہوا؟ چور ڈاکو دن دیہاڑے لوٹ مار میں مصروف ہیں کہہ دیں تو کیا ہوا؟ اس ملک کے ہزاروں نوجوان جیلوں میں بے گناہ سڑ رہے ہیں۔ ان کے گھر والوں کے پاس ان کی ضمانت کے پیسے ہی نہیں کاکڑ صاحب ان کی ماؤں کو بس یہ کہہ دیں تو کیا ہوا؟ جناب وزیر اعظم صاحب اس ملک کا ڈھائی کڑور بچہ اسکول نہیں جاتا۔ حضور اشرافیہ کا اقبال بلند ہو کیونکہ ان کے بچے تو بہترین اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بچہ غریب کا ہی اسکول نہیں جاتا نا۔ کوئی بات نہیں کہہ دیں تو کیا ہوا؟ کاکڑ صاحب لوگ 2 وقت کی روٹی کی خاطر کہیں گھر کے برتن بیچ رہے ہیں تو کہیں اپنا تن برائے فروخت لگائے بیٹھے ہیں۔ کینسر کا مریض اپنی دوائی اب ساڑھے 8 لاکھ میں خریدے گا۔ اس کے گھر والوں کے پاس اتنی رقم نہ ہوئی تو کوئی بات نہیں ان کی تسلی کے لیے آپ کے پاس یہ جملہ ہے انہیں بول دیں کہ تو کیا ہوا؟ کاکڑ صاحب ریاست اب ماں جیسی نہیں رہی۔ یہ کوئی آپ دفتر کے باہر لکھ کر لگا دے تو آپ کہہ دینا تو کیا ہوا؟۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں