تحریر: رانا خالد محمود قیصر
وطن عزیز میں مطالبہ انتخابات کے فوراً بعد سے سماعتوں سے ٹکرا رہا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکئے، دھاندلی کے الزامات پر الیکشن ٹریبونل میں سماعتیں ہوتی رہیں اور فیصلہ اس وقت بھی آیا جب اسمبلیاں یا تو توڑی جا چکی تھیں یا اپنی مدت پوری کرچکی تھیں۔ فی الوقت سوال مینڈیٹ کی واپسی کا طول پکڑتا جارہا ہے۔ روز نت نئے حالات کا سامنا ہے، ضمانتیں ہورہی ہیں، نئی دفعات کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ یہ دورحاضر کی حکومت میں ہی نہیں ہو رہا ہے گزشتہ حکومتوں میں بھی یہ کارگزاری زور وشور سے جاری تھی۔
نہ جانے ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا ہے، فریقین ایک دوسرے کی فتح و ہار کو مان کیوں نہیں لیتے، شاید برداشت کی کمی ہے۔ اس برداشت کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے اپنایا جاتا ہے۔
عصر موجود کے طریق کار کے تحت صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات مکمل ہوچکے ہیں، ماسوائے مخصوص نشستوں کے اب جبکہ تمام ایوان مکمل طور پر فعال ہو چکے ہیں لیکن آئے دن ایوانوں میں بحث و تمحیص جاری ہے۔ فارم 45 اور فارم 47 کی صورت میں ایک مستقل تنازع زندہ ہے۔ وطن عزیز میں عدالتی نظام ان تمام امور کا جائزہ لے کر بخوبی اسے حل کر سکتا ہے اور تمام امور ایوان وآئین کے طابع کئے جا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدالتیں ان معاملات کو نمٹا بھی دیں تو ان کو قبول کرنے کا حوصلہ کس کس میں ہے؟۔ ایک فیصلہ اس کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں اپیل اور اس کے بعد حتمی سپریم کورٹ میں اپیل، اس طویل جدوجہد میں دوبارہ اسمبلیوں کی مدت کیا پوری ہوجائے گی۔ اور نتیجہ؟
آج ہم سویلین کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں مگر دیکھئے اپنی آبائی نشست ہارنے کے بعد دوسری جگہ سے ممبر منتخب تو ہو گئے مگر ایک گلدستے کو چھوڑ کر دوسرے گلدان میں پھول جمع کر رہے ہیں، یا تو وہ وقت تھا کہ مارچ درمارچ کر کے منزل کی حصول میں سرگرداں مگر سیاستدانوں کی ذاتی حیثیت کو متاثر کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ کے رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق بھی اسی سسٹم سے ہارے ہیں۔ کیا ان کے حلقہ جات میں فارم 45 کمزور پڑ گئے تھے یا پھر پیر فلک کی منشاء ہی اور تھی۔
مینڈیٹ کی واپسی کی بات اپنی جگہ مگر یہاں تو اداروں کی جنگ اس طرح شروع ہو چکی ہے جو شاید لامنتاہی ہو، خدا کرے یہ جنگ جلدی ختم ہو اور کوئی سکون کا سانس تو آئے۔ مگر شاید ابھی یہ صورتحال اس قدر جلدی ختم نہ ہو کیونکہ مینڈیٹ کی واپسی شاید نئے انتخابات کی صورت میں ہی ہو سکے۔
بقول انور شعور
ان کے تیروں کا ہیں نشانہ آج
فوج ہو یا عدالت عظمی
کس قدر یاد آرہی ہے انہیں
آں جہانی وزارت عظمی
صورتحال یہی ہے کہ ہر ایک سیاسی جماعت اور ان کے رفقاء کار صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے نہ کہ مملکت خداداد کی فلاح واستحکام۔ مملکت کے تمام ستون اپنی جگہ تو مضبوط ہیں اس میں شک کی گنجائش قطعی نہیں ہے البتہ یہ تمام ستون یکجا ہو کر اپنی قوت سے ملک وملت کی خدمت کا سوچ لیں تو دشمن کے دانت کھٹے کر سکتے ہیں۔ اکیلی اُنگلی ایک آنکھ پھوڑ سکتی ہے لیکن اگر ایک مُکا رسید کر دیا جائے تو پورا جبڑا باہر آسکتا ہے۔
سیاسی مفاہمت پر کوئی بھی فریق بیٹھنے کو تیار نہیں ہے نہ ہی ایک دوسرے کی بات کو کوئی وقعت دے رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے مرکز مائل کے مرکز گریز باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ مرکز گریز باتیں ہمیں اپنے مقصد سے دور لے جائیں گی جس کے نہ تو ہم خود متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی وطن عزیز ہے۔ اجتماعی سیاسی وسماجی شعور ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ آج کل گرمیوں کا موسم عروج پر ہے، اس کڑی دھوپ میں انسانیت کیساتھ چرند پرند کا خیال ہم سب پر لازم ہے۔
دعا ہے کہ رب کائنات ہمارے ملک کی فضاؤں کا موسم بھی خوشگوار کردے اور ہماری سیاسی فضاؤں کا موسم بھی خوشگوار کر دے تاکہ سب ہی اس عطائے خداوندی سے مستفیض ہو سکیں۔