کراچی: (مدثر غفور) پاکستان اسٹیل ملز کے سی ای او کی رہائش گاہ پر اسٹیل ملز جبری برطرف ملازمین کا اپنے اہل خانہ سمیت بچوں کے ہمراہ گزشتہ 18 روز سے سخت سردی میں احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے اور آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی اسٹیل ملز کے رہنمائوں سمیت دھرنے کے شرکاء پر ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود اپنے مطالبات منوانے تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسٹیل ملز ملازمین کے سی ای او کی رہائش گاہ پر احتجاجی دھرنے سے جہاں دوسرے وفاقی اداروں اور وکلاء برادری پر اثرات مرتب ہوئے ہیں وہیں اس کی وجہ سے 29 جنوری کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدوار کی میٹنگ میں اہم پیش رفت کا بھی امکان ہے۔
گزشتہ 18 روز سے جاری احتجاجی دھرنے میں اب تک ملک کی بڑی وفاقی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہ، سابق گورنر سندھ، سینیٹرز، رکن قومی و صوبائی اسمبلی، قوم پرست جماعتوں کے عہدے دار، مختلف وفاقی و صوبائی اداروں کی ٹریڈ یونین و سی بی اے رہنما، انسانی حقوق کی تنظیموں کے رہنما، چھوٹی بڑی تنظیموں کے رہنما اسٹیل ٹائون میں پاکستان اسٹیل کے سی ای او کی رہائش گاہ پر اظہار یکجہتی کیلئے آچکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کے سب بڑے فولاد ساز ادارے اسٹیل ملز کے سی ای او کی رہائش گاہ پر جاری اسٹیل ملز جبری برطرف ملازمین کے احتجاجی دھرنے سے ملک کے دوسرے وفاقی اداروں پر گہرا اثر پڑا ہے اور مختلف صوبوں میں موجود دوسرے وفاقی اداروں کے سربراہوں کیلئے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے وزراء، مثیروں، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کے وکلاء سمیت مختلف اداروں کی ٹاپ مینجمنٹ میں یہ بات زیر بحث ہے۔
دی پاکستان اُردو سے سندھ کے بڑے شہر کراچی میں قائم ایک وفاقی ادارے کے سربراہ نے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے بتایا کہ وفاق کے زیر انتظام اداروں کے سربراہوں کی وفاقی کابینہ اور مختلف وزراء و مثیروں سے اسلام آباد میں طویل بیٹھک ہوئی ہے۔ اس بیٹھک میں سب سربراہوں نے اپنے تحفظات اور پریشانی سے آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح ہر وفاقی ادارے کے سربراہ کو رہائش گاہ میں محصور کرکے احتجاج کی روایت پڑ گئی تو یہ موجودہ حالات میں رکے گی نہیں اور مذید بڑھی گی۔ اس طرح ہر ادارے کے ملازمین احتجاجی دھرنے سے اپنا حق حاصل کریں گے۔
اس بٹھیک میں موجود پورٹ قاسم کی ٹاپ مینجمنٹ کے زرائع نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ کچھ ماہ میں مختلف اداروں کی نجکاری عمل میں لائی جائے گی اور اس طرح پھر ہر ادارے کے ملازمین اپنے سربراہوں کی رہائش گاہ کا گہرائو کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ تحفظات کے بعد وفاقی حکومت کے وزراء سمجھتے ہیں کہ اسٹیل ملز کے سی ای او کی رہائش گاہ پر جاری احتجاج کے پیچھے سندھ حکومت کی پشت پناہی ہے اور اگر اسی طرح پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں اپوزیشن کی جماعتیں سرکاری ملازمین کے احتجاج کو سپورٹ کرنے کھڑی ہوتیں ہیں تو ملکی حالات مذید خراب ہونگے۔ جس طرح پاکستان اسٹیل ملز اور الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج میں ہوا ہے اس سے محکمہ جاتی بحران پیدا ہوگا۔
اسلام آباد کی اس بیٹھک میں وفاقی اداروں کے سربراہوں نے وفاقی وزراء اور مثیروں پر واضح کردیا ہے کہ وزیراعظم سمیت آپ کے کسی دعوائوں اور وعدوں پر عوام میں ہی نہیں سرکاری ملازمین میں بھی اعتماد نہیں رہا ہے۔
آپ تحریری طور پر پی آئی اے اور اسٹیل ملز کیلئے گولڈن شیک ہینڈ کا لکھ کر دیں گے تو اسٹیل ملز مظاہرین کے شرکاء یقین کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی طور پر آپ کے کسی اعلانات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
قومی اسمبلی میں مختلف پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے رکن اور تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے جو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدوار کے ارکان نے اسٹیل ملز جبری برطرف ملازمین کے احتجاج میں شریک ہوکر اظہار یکجہتی کیا اور وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ 19جنوری کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدوار کی میٹنگ میں اہم پیش رفت کا امکان ہے جس میں ساجد حسین طوری، اُسامہ قادری، عبدالرحمان خان کانجو اور آغا رفیع اللہ اہم کردار ادا کریں گے۔