تحریر: شاہد نعیم (جدہ)
معروف نعت گو اور مزاحیہ شاعر پروفیسر عنایت علی خان اک منفرد انداز کے شاعر تھے۔ جولائی 2020 کو وہ ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے، پروفیسرعنایت علی خان کی عمر85 برس تھی۔ وہ 1935ء میں ہندوستان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے 1948ء میں سندھ کے شہر حیدرآباد ہجرت کی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی و ثانوی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی۔ 1962ء میں انہوں نے ماسٹرز میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
پروفیسر عنایت علی خان کا قلمی نام عنایت تھا۔ پروفیسر عنایت علی خان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اور والدہ دونوں ہی ادب اور شاعری کا ذوق رکھتے تھے بلکہ پروفیسر عنایت علی خان کے والد ہدایت اللہ خان ناظر ٹونکی باقاعدہ مزاح نگار تھے۔ اردو کی درسی کتب برائے مدارس صوبہ سندھ مقابلہ کی بنیاد پر لکھیں اور چھ کتابوں پر انعام حاصل کیا۔ پروفیسر عنایت علی خان کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جن میں ازراہِ عنایت، عنایات اور عنایتیں کیا کیا، عنایت نامہ اس کے بعد کلیات عنایت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دو کتابیں بچوں کی نظموں اور کہانیوں پر مشتمل ہیں۔
پروفیسر عنایت علی خان 40 برس سے زاید درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ پروفیسرعنایت علی خان کی نظم بول میری مچھلی کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا، لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر، یہ مشہور شعر بھی انہی کا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں طبقاتی منافرت، سماجی مسائل نمایاں رہے۔ وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کی صورت میں سماج و معاشرے کے سنجیدہ اور دکھتے ہوئے مسائل کو اجاگر کرتے تھے۔ ڈاکٹر عنایت کی ایک ایسی نظم جسے آج بھی کے الیکٹرک کے بجلی کے بل کے پشت پر شائع ہونی چاہئیے، مگر شاید اتنی معیاری نظم بجلی کے بل میں شامل کرنا توہین بھی اور ادب کے خلاف بھی ہو، شاید؟؟۔
قارئین ان کی یہ نظم پڑھیں اور دعائے مغفرت کریں پروفیسر صاحب کے لئے:
کے الیکٹرک اور اقبال
جب واپڈا والوں سے کہا جا کے کسی نے
یہ کس نے کہا ہے ہمیں راتوں کو سزا دو
بولے ہمیں اقبال کا پیغام ملا تھا
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
اور اُٹھتے ہوئے بَاس نے یہ اور کہا تھا
کاخِ اُمراء کے در و دیوار سجا دو
کاخِ امرا کے کہیں فانوس نہ بُجھ جائیں
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو
جس زون سے ورکر کو میسر نہ ہو روزی
اس زون میں کُنڈوں کا چَلن اور بڑھا دو
جو بندۂ مومن نہ ہو سَیٹنگ پہ رضامند
دو لاکھ کا بِل ہاتھ میں تم اس کو تمہا دو