اختصار اور برق رفتاری: ایک نئی دنیا کا جنم

0
7

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان

پچھلی تین دہائیوں سے جنگ اور انفارمیشین کی نوعیت ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے: مختصر اور انتہائی برق رفتار مگر ان دونوں میں ہم آہنگی بھی نظر آ رہی ہے۔ اس کے مقابل سیاسی ڈسکورس بہت کمزور ہوتا نظر آرہا ہے، آپ امریکہ، بھارت، فرانس اور برطانیہ سمیت کہیں دیکھ لیں سیاست ڈومینیٹ کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔

دنیا میں اس وقت بڑا مسئلہ لیبرلزم اور ریلزم کا اوور لاپ ہے اور لیبرلزم کہتا ہے کہ تعاون جنگ سے بہتر ہے جبکہ ریلزم کا فلسفہ ہے کہ امن حاصل کرنے کا واحد ذریعہ جنگ ہے۔ امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور ملٹی نیشینلز کمپنیاں ایک دوسرے کے بالمقابل آ گئے ہیں۔ دونوں طاقتور ہیں اور دونوں عالمی معیشیت کے بڑے حصہ دار بھی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگوں اور تنازعات میں ثالثی کا کردار، امریکہ کو ریشنل دکھانے کا نیا ڈپلو میٹک فیس ہے۔ چین کو ایران سے تیل خریدنے کی اجازت دینا بھی عندیہ ہے کہ ٹرمپ تعاون کو بڑھانے اور جنگوں کو مختصر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جے ڈی وینس، امریکی نائب صدر نے بھی اپنی ٹویٹ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ

جب اکیسویں صدی کا سور ج طلوع ہوا تو امریکہ واحد سپر پاور تھا (اکلوتا پتر)۔ گلوبل آرڈر پر مضبوط گرفت کے لئے امریکہ نے انرجی، سمندری گزر گاہوں اور انفارمیشین پر اپنی حکمرانی کو ضروری سمجھا۔ لیکن انٹرنیٹ کی ترقی اور متبادل عالمی طاقتوں کے ظہور اور ان کی بڑھتی معاشی طاقت نے ایک گنجل نما گلوبل آرڈر کو جنم دیا۔ امریکہ پچھلے 35 سال سے اسی طوفان کی زد میں ہے۔

ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس (امریکی جنگی سازو سامان کی صنعت) کا امریکی اسٹیبلشمنٹ پر بہت اثرو رسوخ ہے اور دوسری طرف بڑی بڑی امیر کمپنیاں اور بینک بھی امریکی حکومت پر برابر اثر انداز ہوتے ہیں۔ امریکہ کی پچیدہ اندرونی اور عالمی سیاست نے جنگوں کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور اب جنگیں اپنی نوعیت تبدیل کرتے کرتے ٹی-20 کی شکل میں، آوارد ہوئیں ہیں: مختصر اور فیصلہ کن۔ لیکن بہت ہی مہنگی جنگیں۔ ایک بی2 لڑاکا طیّارہ ایک بلین ڈالر کا ہے۔

انٹرنیٹ نے انسانی ذہن کے نیوران کو اتنا سکیڑ دیا ہے کہ یہ 14 سیکنڈ کی یوٹیوب اور ٹک ٹاک ریل پر آکر ٹک گیا ہے۔ اسے طویل دورانیے کی نہ فلم پسند آرہی ہے نہ تقریریں۔ جنگ کے طویل نشیب و فراز کو یاد رکھنا انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں اور اگر جنگ انسانی ذہن پر اثر انداز نہیں ہو رہی تو پھر اس جنگ کا فائدہ کیا۔

ہر جنگ اب باقاعدہ گلوبل اکانومی کے ساتھ جڑچکی ہے اور اس لئے اس کا مختصر سے مختصر ہونا ضروری ہے لیکن جیسے جیسے یہ مزید مختصر ہوتی جائے گی اسی نسبت سے نیوکلئیر تھری ہولڈ کم ہوتا جائے گا اور یہ خطرناک ہوتی جائی گی۔

پاکستان اپنے وجود میں آنے سے لیکر آج تک خطرات میں گرا ہوا ہے۔ مئی 2025 میں پاکستان پہلی دفع خطے کی مجموعی صورتحال پر حاوی نظر آیا اور عالمی افق پر موثر طریقے سے حاوی ہوا ہے۔ پاکستان پر جس بھی قسم کی جنگ مسلط کی گئی پاکستان نے اس جنگ کا پوری قوّت سے جواب دیا- وہ روایتی جنگ تھی یا غیر روایتی جنگ کا خطرہ، دشت گردی یا حال ہی میں ہونے والی نیٹ سینٹرک جنگ-

بھارتی صحافت، مغربی میڈیا اور انٹرنیٹ کے گٹھ بندن نے پاکستان کے قومی تشخص کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں پاکستان بھارتی اور مغربی میڈیا کے جھوٹ کی یلغار کے سامنے بے بس نظر آیا۔ اس کی بنیادی وجہ انفارمیشین یا میڈیا کی تربیت اور وسائل کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگوں سمیت معیشیت، تعلیم، صحت سب مختصر اور فیصلہ کن نتائج حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں- ہر تین گھنٹے بعد ایک گھنٹے کا تفصیلی بلیٹن اب نئے پیٹرن کی ڈیمانڈ مانگتا ہے۔ نہیں یقین تو انٹرنیٹ کے پسندیدہ کانٹنٹ کا تجزیہ کروا لیں۔ 5 فیصد لوگ بھی خبروں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں