تحریر: جمیل قاسم، گوادر
گوادر جسے ترقی کے خوابوں کا مرکز کہا جاتا ہے، آج بجلی کے تاروں کے جال میں الجھ کر بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ یہاں کے باسی، ساحل کی تروتازگی کے بجائے، ہر روز بجلی کے خستہ حال نظام سے جوجھتے ہوئے ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو رہے ہیں۔
کیسکو کا نظام جو عوام کی سہولت کے لیے قائم ہوا تھا، اب خود ایک عذاب بن چکا ہے۔ ضلع گوادر میں بوسیدہ تاریں، کھوکھلے کھمبے اور بار بار جواب دیتے ٹرانسفارمرز صرف تکلیف کا باعث ہی نہیں بلکہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ ان خستہ حال تاروں کی زد میں آکر رواں برس دو قیمتی جانیں زندگی کی بازی ہار گئیں، جبکہ متعدد افراد موت کے دہانے تک پہنچے مگر خوش قسمتی نے ان کا ساتھ دیا اور روزانہ ایک جانور انہی تاروں کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوادر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ کوئی سننے والا ہے، نہ دیکھنے والا۔ کیسکو کے ذمہ داران جیسے صرف ریونیو کی وصولی ان کا مطمع نظر ہو، عوام کو بجلی کی فراہمی اور حفاظت ان کی ترجیحات میں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔
گوادر میں ری کنڈکٹنگ کے لیے نیا سامان کھمبے، تاریں اور ٹرانسفارمرز موجود تو ہے، لیکن کئی مہینوں سے یہ زمین پر پڑے پڑے زنگ آلود و کمزور ہو چکے ہیں۔ نہ ان کی تنصیب کا کوئی شیڈول ہے، نہ کوئی عملی اقدام۔ المیہ یہ ہے کہ کیسکو گوادر ڈویژن کے پاس کوئی مؤثر شکایتی نظام موجود نہیں۔
نئے ایکسیئن کیسکو نے اگرچہ ایک وٹس ایپ کمپلین سیل بنا کر اپنی طرف سے ذمّے داری سے سبکدوش ہو چکا ہے، مگر اُس گروپ میں صارفین کی فریادیں محض نمبروں کی شکل میں سسک رہی ہیں۔ نہ ان پر عمل ہوتا ہے، نہ جواب۔
رات 9 بجے کے بعد جب بجلی کی خرابیوں کا سامنا سب سے زیادہ ہوتا ہے، کیسکو کے پرائیویٹ لائن مین کام بند کر دیتے ہیں۔ ادارے کے اپنے چند لین مین بھی غیرفعال یا ناپید ہیں۔ یوں اگر کسی محلے میں تار گرجائے تو پوری رات بجلی کی چنگاریاں موت کا رقص کرتی ہیں، اور اگلی صبح جب کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تب جاکر بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔
عید سے قبل کیسکو ورکشاپ کے لیے ٹینڈر جاری کیا گیا، مگر وہ بھی ایک منظورِ نظر فرد کو عطا کر دیا گیا، نتیجتاً ادارے کے اندرونی اختلافات نے ورکشاپ کو تالا لگوا دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ خراب ٹرانسفارمرز ہفتوں تک مرمت کے منتظر پڑے رہتے ہیں اور عوام گرمی میں سلگتے رہتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق گوادر وہ ضلع ہے جہاں کوئٹہ کے بعد سب سے زیادہ ریکوری ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ جو صارفین بروقت بل دیتے ہیں، انہیں بھی اوور ریڈنگ کے ذریعے ہزاروں روپے کے ناجائز بل تھما دیئے جاتے ہیں۔ اور جو بل ادا نہیں کر پاتے اُن کے پیچھے تیز دھار تلوار کی طرح کیسکو کی جبری ریکوری ٹیم آجاتی ہے اور علاقے کے ٹرانسفارمر کو بند کرکے چلے جاتے ہیں، گویا سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہو۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گوادر میں بجلی کی تاریں صرف بجلی ہی نہیں پہنچاتیں، بلکہ خوف، اذیت اور غیر یقینی موت کا پیغام بھی ساتھ لاتی ہیں۔
اگر اہل اقتدار اور اداروں کے ذمہ داران نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ خاموش المیہ کسی دن بڑے سانحے کی شکل اختیار کر لے گا۔ اور تب صرف افسوس اور تعزیت باقی رہ جائے گی، مسئلہ نہیں۔