تحریر: کنول زہرا
بلوچ لبریشن آرمی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ایک عرصے سے خواتین کا استعمال کررہی ہے، شاری بلوچ، عارفہ بلوچ، صبا بلوچ، نورین لغاری سمیت اور بہت سی خواتین کو بلوچ لبریشن آرمی اپنے فرسودہ ایجنڈے کی بھینٹ چڑھا چکی ہے، سمعیہ بلوچ کا حالیہ واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
سیکیورٹی فورسز کے بغض میں مبتلا بی ایل اے نوجوان نسل کے دلوں میں ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت پیدا کر رہی ہے، اس نفرت کی وجہ سے ہی ایک بار پھر بی ایل اے نے سمعیہ بلوچ کا استعمال کیا، بلوچ لبریشن آرمی کی خاتون دہشتگرد نے تربت میں کمشنر کے دفتر کے قریب سیکورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ کیا۔ جس میں حکام کے مطابق ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔ 25 سالہ سمیعہ بلوچ عرف سمو کا تعلق خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔
بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ سمعیہ بلوچ گذشتہ سات سال سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ منسلک تھی، خود کش بمبار سمعیہ بلوچ کے مبینہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھی اور پانچ سال تک تنظیم کی میڈیا ونگ میں خدمات سرانجام دیتی رہی، دہشتگرد خاتون کا منگیتر ریحان بلوچ بھی دہشتگرد تھا، اس نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب اگست 2018 میں چینی انجینئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔ جس میں تین چینی کارکنوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
کچھ عرصے سے عسکریت پسند تنظیموں نے سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لیے خواتین بمبار کا استعمال کیا ہوا ہے، دراصل پاکستانی، خواتین کا احترام کرتے ہیں، ہماری سیکیورٹی فورسز خواتین کے تقدس کی وجہ سے ان کی تلاشی نہیں لیتی ہیں، جس کا فائدہ نام نہاد بلوچ عسکریت پسند اٹھا رہے ہیں، اگر یہ واقعی اصل بلوچ ہوتے تو اس قسم کا زنانے وار نہ کرتے کیونکہ حقیقی بلوچ غیرت مند ہوتا ہے، وہ اپنی ہی نہیں بلکہ دیگر خواتین کا بھی احترام کرتے ہیں جبکہ بلوچ قوم کا نام استعمال کرنے والی منہ بولی لبریشن آرمی بلوچ قوم کی غیرت پر دھبہ ہے۔