تحریر: ثاقب بشیر
اُمید لگائے ہر کوئی خوش تھا، نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ ججز کی تقسیم نے عدلیہ کو بطور ادارہ بہت نقصان پہنچایا ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب 16 ستمبر 2023 کو قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس حلف اٹھانے جا رہے تھے اور ان سے بہت امیدیں تھیں لیکن وقت نے سب اندازے غلط ثابت کئے۔ قاضی فائز عیسیٰ نئے روپ میں ظاہر ہوئے جو اس سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھے۔ سب سمجھ رہے تھے کہ ایک جج نے جو مشکل وقت دیکھا ہے اس نے بہت کچھ سیکھا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایسے معلوم ہو رہا تھا ایک سیاسی جماعت ان کی ریڈ لائن ہے۔ بغض ایسا جو ناپ تول میں نہیں تھا پھر ماضی میں ریفرنس دائر ہونے کی مخالفت کے باوجود ہر دوسرا کیس پی ٹی آئی کا خود سنا، خوب بغض نکالا بار بار اعتراضات ہوتے رہے مگر ڈٹے رہے کبھی بنچ سے الگ نہیں ہوئے خود کو سپریم کورٹ کے ججز میں سے سپیرئیر کلاس سمجھا، جیسے باقی ججز کو آئین قانون پارلیمان کا کچھ معلوم نہیں، صرف ان کو ہی معلوم ہے۔
صحافیوں نے جب اصل چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کیا تو ہر دوسری سماعت میں صحافیوں کو عجیب و غریب طعنے دینے شروع کر دئیے، ان کے دور میں شہریوں سیاسی ورکرز کو اٹھایا جانا عام ہوا لیکن قاضی وقت نے آنکھیں بند کئے رکھیں، شروعات اچھی تھی اختتام عدلیہ کی تباہی پر ہوا۔ قاضی فائز عیسیٰ پہلے ہی دن رجسٹرار ایک خاتون کو لائے، آتے ہی فل کورٹ بلائی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو نافذ کروایا۔ چیف جسٹس سمیت تین ججز کی کمیٹی بنی چیف جسٹس کے اختیارات کی تقسیم سے عدلیہ سے ٹھندی ہوا آنا شروع ہوئی، پہلی براہ راست سماعت نشر کرنے سے ایسے لگا شفافیت کے لحاظ سے انقلابی تبدیلی آرہی ہے، کچھ کمیٹی میٹنگ منٹس جاری ہونا شروع ہوئے، پہلے تین ماہ میں نظر آرہا تھا۔ سیاسی طور پر انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، توقع تھی ان کو روکنے کے لئے قاضی فائز عیسیٰ اپنا آئینی اختیار استعمال کریں گے مگر کچھ نا ہوا، جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بہت امیدیں باندھ رکھی تھیں لیکن 13 ماہ سے زائد عرصے میں لاپتہ افراد کیسز میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس نے ایک آدھ سماعت ہی کی۔ لاپتہ افراد کیسز میں عملی طور نتیجہ صفر رہا، قاضی فائر عیسی کے دور میں جو اچھے کام ہوئے ان پر وہ کام برتری لے گئے، جنہوں نے عدلیہ کو بطور ادارہ وہ نقصان پہنچایا جو آمرانہ دورمیں بھی نہیں پہنچایا گیا۔
شروع کے تین ماہ بطور صحافی ہم محسوس کر رہے تھے انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدہ افراد، خواتین کی ضمانتوں کے کیسز، ایک سیاسی جماعت کے وابسطہ افراد کو سرعام اٹھانا، لاپتہ کرن،ا ٹارچر کرنا، پریس کانفرنسز کرانا عام ہو چکا تھا۔ اس پر کچھ ہو گا لیکن کچھ نہیں کیا گیا، 13 جنوری بلے کے نشان کیس کا فیصلہ جس طرح دو دن عدالت کھول کے رات ساڈھے گیارہ بجے آیا، وہ پہلا دن تھا جب قاضی وقت کا اصلی چہرہ سامنے آیا، ایسے لگا جیسے وہ کسی مشن پر ہیں۔ برطانیہ امریکہ آسٹریلیا کی انٹرا پارٹی الیکشنز کی مثالیں دے دے کر ایک پارٹی جس کو پہلے ہی کھڈے لائن لگانے کے لئے دن رات کام ہو رہا تھا۔ اس کو نشان جمع کرانے والے دن نشان سے محروم کرکے سسٹم کو سہولت کاری کا عملی آغاز کیا۔
الیکشن کمیشن نے نشان سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر پارٹی حقوق بھی ختم کر دئیے، جن کے بارے میں جولائی میں قاضی فائز عیسیٰ نے کہا الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے پارٹی حقوق ختم نہیں کر سکتا تھا لیکن تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا جو کام الیکشن ٹریبیونل نے کرنا تھا خود سن کر فیصلے حکومت کے نمبر بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ 8 فروری الیکشن کی تاریخ چیف جسٹس نے طے کروائی یہ ان کا کریڈٹ ہے مگر الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ نا دلوا سکے بلکہ الٹا پی ٹی آئی جس کے امیدواروں اور کارکنان کو کاغذات جمع کرانے میں شدید مشکلات تھیں۔ جلسوں کی اجازت نہیں تھی بولنے کی اجازت نہیں تھی ان سے بلے کا نشان ٹیکنیکل بنیادوں پر لے لیا۔
شروع میں فل کورٹ بلا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عمل درآمد کرنا پھر انتظامی سائیڈ پر براہ راست دیکھانے کا فیصلہ فل کورٹ کے ذریعے کرنا خوش آئندہ اقدامات تھے۔ بھٹو قتل کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس پر رائے دینا کہ بھٹو کا فئیر ٹرائل نہیں ہوا تھا۔ بارہ سال بعد اچھا اقدام تھا، تاحیات نااہلی کو پانچ سالہ نااہلی سے بدلنے کی پارلیمان کی قانون سازی کو تسلیم کیا۔ 63 اے کا فیصلہ درست تھا، مخصوص سیاسی حالات کے تناظر میں ٹائمنگ درست نہیں تھی پھر جس طرح کیس ڈرامائی صورت حال میں لگا کر فیصلہ کیا۔ اس سے حکومت کو آئینی ترامیم منظور کرانے میں مکمل سہولت کاری دی۔
آٹھ فروری سے پہلے اور بعد پی ٹی آئی کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر تھیں لیکن قاضی وقت کے ہاں بالکل ٹھنڈ تھی، آئین میں ملے انسانی حقوق کے تناظر میں ملٹری کورٹس کیسز میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں میں اپیل پر دسمبر 2023 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ معطل کیا تو اس کے بعد اس اپیل پر آج تک فیصلہ ہی نا ہو سکا، کیس زیر التوا پڑا ہے۔ 83 افراد ملٹری کی حراست میں ہیں یہ 83 خاندان بلکہ 83 کیس بنتے ہیں ان کے پیارے انتظار کر رہے ہیں مگر قاضی نے اس کیس کو مقدم نہیں رکھا۔ 20 ستمبر کو آرڈینیس جاری ہوا ایسے تاثر ملا قاضی کی مرضی سے جاری ہوا جس پر پلک جھپکتے ہی فوری عمل درآمد کرکے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی سے جسٹس منیب اختر کو نکال کر جسٹس امین کو شامل کر لیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے فل کورٹ بلانے کے لیے خطوط لکھے لیکن 20 ستمبر سے 25 اکتوبر جسٹس امین الدین کو ساتھ ملا کر ون مین شو چلایا، انٹرمنٹ سنٹرز کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں 2019 سے زیر التوا تھیں ان پر کوئی فیصلہ نہیں کیا نا کیس لگایا۔
آٹھ ججز کی مخصوص نشستوں کے کیس میں وضاحت کو انتظامی سائیڈ پر اٹھا کر تذلیل کرنے کی کوشش کی، اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا یہ آٹھ ججز کا فیصلہ ہی نہیں اس پر عمل بھی ضروری نہیں، نا توہین عدالت لگتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بے توقیری میں اپنا پورا حصہ ڈالا، بلے کے نشان کیس کے فیصلے میں تنقید کی پاداش میں صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹس ہوئے، اسد طور بیس دن حراست میں بھی رہے، بعد میں اٹارنی جنرل نے کہا یہ مقدمہ تو بنتا ہی نہیں تھا۔ 63 اے کا فیصلہ مخصوص سیاسی حالات میں دیکر حکومت کو مکمل سہولت کاری فراہم کرنے کی عدالت میں مداخلت کے حوالے سے چھ ججز کے خط کو اپنے خلاف سازش سمجھا، یہاں تک کہ ذرائع کے مطابق ججز کے حوالے سے کہا گیا، تم نے میری پیٹ میں چھرا گھونپا ہے۔ پھر کمیشن بنانے چلے اور انہی ججز کو بظاہر بطور ملزم ٹریٹ کرنے چلے تھے، چھ ججز کے خط از خود نوٹس کیس میں وضاحتیں ہی دیتے رہے۔ چھ ججز کے حق میں کوئی بات نہیں کی، جب عہدہ سنبھالا تھا تب جتنی تقسیم عدلیہ میں تھی جب چھوڑ کر جا رہے تو تقسیم تو بڑھ ہی چکی ہے۔ ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی بھی کمپرومائز ہو چکی ہے۔ آئینی ترامیم کے بعد عدلیہ پر کنٹرول بھی آچکا ہے، جو عدلیہ کے مستقبل کے لئے کسی صورت بھی درست نہیں، عدلیہ کو اس نہج پر پہنچانے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مکمل کر دار ہے۔ جس پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، تاریخ میں بدترین چیف جسٹس کے دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔