تحریر: نرجس کاظمی
جہلم میں چھپے سارہ کے قاتل برطانیہ میں رہائش پذیر 10سالہ سارہ قتل کیس والدین فرار ہو کر پاکستان کے شہر جہلم پہنچ گئے اصل معاملہ کیا ہے؟ تین افراد برطانیہ میں قتل ہونے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے قاتل ہیں، ایک باپ ہے (داڑھی والا) 41 سالہ عرفان شریف اور عورت سارہ کی سوتیلی ماں 29 سالہ بینش جبکہ تیسرا بھائی فیصل ملک ہے، جس کی عمر 28 سال ہے۔ سارہ کی موت گردن ٹوٹنے کی وجہ سے بتائی جا رہی ہے۔ سارہ کے جسم پر پرانی چوٹوں کے نشان بھی ملے ہیں۔
برطانوی پولیس ان تینوں قاتلوں کی تلاش میں ہے اور پاکستان پولیس کی مدد کے درخواستگار ہیں۔ تینوں قاتل سارہ کو قتل کرکے پاکستان بھاگ آئے ہیں اور جہلم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال جو کوئی ان تینوں کو دیکھے فورا پولیس کو اطلاع دے۔ شاید یہ لوگ اسی لئے پاکستان آ گئے ہیں جانتے ہیں کہ یہاں انصاف بکتا ہے اور ان کے پاس پونڈ سٹرلنگ کی طاقت ہے۔ سارہ کیلئے برطانوی کمیونٹی کیساتھ مل کر آواز اٹھائیں اور قاتلوں کو گرفتار کروائیں۔
دس سالہ سارہ شریف کی سگی ماں کافی عرصہ پہلے گھریلو ناچاقی کی بناء پر عرفان شریف سے علیحدہ ہو چکی تھی اس نے اپنی بیٹی کی کسٹڈی کا کوئی دعوی دائر نہیں کیا تھا۔ عرفان شریف نے دوسری شادی کرلی اور 5 مزید بچوں کا باپ بھی بن گیا۔
اب سارہ 10 سال کی ہو چکی تھی۔ ان دس سالوں میں اس پہ کیا بیتی کوئی کچھ نہیں جانتا ہاں کچھ عرصہ قبل اس سے اسکول چھڑوا لیا گیا تھا۔ اسکول چھوڑنے سے کچھ روز قبل اس کی ایک کلاس فیلو جو کہ اس کی پڑوسن جیسیکا کی بیٹی ہے نے سارہ کے چہرے اور گردن پہ چوٹوں کے نشان دیکھ کر وجہ پوچھی سارہ نے کہا، وہ موٹر سائیکل سے گرگئی تھی جس کی وجہ سے یہ چوٹیں آئی ہیں یہ سارہ کا اسکول میں آخری دن تھا۔ اس کے بعد سارہ کو اسکول آتے جاتے کسی نے نہیں دیکھا۔ سارہ کا اسکول انتظامیہ کو یہ کہہ کے چھڑوا لیا گیا کہ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے اب سارہ گھر میں پڑھے گی۔
سارہ کے پڑوسیوں کے مطابق سارہ ایک سمجھدار اور سلجھی ہوئی بچی تھی۔ اکثر اپنے گھر کے یارڈ میں اپنے چھوٹے سوتیلے بہن بھائیوں کو بہلاتے یا ان کے چھوٹے موٹے کام کرتی نظر آتی تھی۔ سارہ کے قتل سے پہلے یا فورا بعد ایک ٹریول ایجنٹ کو کال موصول ہوتی ہے کہ ہمیں پاکستان جانے والی پہلی فلائٹ کے 8 ٹکٹ درکار ہیں۔
ٹریول ایجنٹ کے مطابق میں نے وجہ پوچھی تو سارہ کے والد نے بتایا ہمارے انتہائی قریبی عزیز کی پاکستان میں وفات ہوگئی ہے اور ہمیں جنازے پر پہنچنا ہے۔ فوری دستیاب فلائٹ کے ٹکٹس مہیا کر دئیے جاتے ہیں فیملی پاکستان پہنچتی ہے اور عرفان شریف برطانیہ کے ایمرجنسی نمبر پہ کال کر کے کہتا ہے کہ ہمارے گھر میں بچی کی لاش پڑی ہے دریافت کرلیں۔
برطانیہ کے علاقے ووکنگ میں رہائش پذیر ایک پاکستانی فیملی کے گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ سارہ شریف کے کیس کی تفتیش کے سلسلے میں برطانوی پولیس کو پاکستان میں ان کے والد، سوتیلی ماں اور چچا مطلوب ہیں۔ سارہ کا باپ 41 سالہ عرفان شریف، دوسری بیوی 29 سالہ بینش بتول اور اس کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک سارہ کے قتل کے بعد پاکستان پہنچ کر روپوش ہوچکے ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق پاکستان کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے سارہ شریف کی ہلاکت کے معاملے میں مطلوب باپ عرفان شریف کے دو بھائیوں اور اس کے والد سے پوچھ گچھ کی ہے لیکن انھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ تفتیش کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ سارہ کے دونوں چچا کا کہنا ہے کہ سارہ کی موت سیڑھیوں سے گرنے سے گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے ہوئی ہے۔ کبھی وہ موٹر سائیکل سے گر کر زخمی ہوتی ہے تو کبھی سیڑھیوں سے گر کر گردن تڑوا لیتی ہے کس قدر گری ہوئی کہانی ہے۔
سارہ کیلئے اس کا پورا شہر سراپا احتجاج ہے کونسا محلہ ہے جس کے مندر مسجد گرجا میں اس کیلئے دعا نہیں ہو رہی اہل محلہ سارہ کو انصاف دلوانے کیلئے سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔ ساری کے گھر کے بند دروازوں کے باہر گلدستوں کے ڈھیر لگا چکے ہیں۔ اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سارہ کے قاتلوں کو گرفتار کر کے ہماری حکومت کے حوالے کیا جائے۔ سارہ کیساتھ انصاف کیلئے سارہ کا ساتھ دیں قاتلوں کو گرفتار کروانے میں پولیس کی مدد کریں اور مطالبہ کریں کہ قاتلوں کو برطانیہ کی حکومت کے حوالے کر دیا جائے۔