پاکستان میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آزادی اظہار کی عالمی رینکنگ میں تنزلی آئی پاکستان 145 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
ایک فرد کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جتنا پاکستان کے میڈیا نے سپورٹ کیا شاید ہی کسی اور نے سپورٹ کیا ہو۔ چاہے کوئی میڈیا اینکر ہو کوئی کیمرہ مین ہو، کوئی صحافی ہو اور کوئی لکھنے والا ہو، سب نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا۔
عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہوتے تھے اور خالی کرسیوں کو بھی 8 آٹھ گھنٹے کوریج اسی پاکستانی میڈیا نے دی لیکن جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے آزادی صحافت پر قدغن پہلے سے زیادہ لگ گئی ہے اور رنکینگ کے حساب سے پاکستان آزادی صحافت کے حساب سے 145 ویں نمبر پر چلا گیا۔
پی ٹی آئی کے کچھ وفاقی وزیر عرب ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں پر کسی کی جرات نہیں ہے حکومت کے خلاف لکھے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں سے التماس ہے کہ آپ کو لایا گیا ہے اور پاکستان میں جمہوریت ہے نہ کہ بادشاہت اور جمہوریت میں صحافی کو آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف لکھنے والوں کو تو یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ دشمن ہے یہ غدار ہیں۔ پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے ملک دشمن صحافیوں اور محب وطن صحافیوں کی لسٹ بھی جاری کی گئی تھی جو بعد ازاں ڈیلیٹ کر دی گئی، خوشامدی اینکروں کو محب وطن قرار دیا گیا اور حکومت کے ناقدین کو غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا تھا۔
ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اظہارِ رائے کی آزادی اور آزاد صحافت کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں۔ گو کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران نجی نیوز چینلز نے سرکاری ٹی وی سے ہٹ کر خبریں اور حالاتِ حاضرہ پر پروگرام پیش کرنے کا آغاز کیا۔ تاہم حالیہ برسوں میں ان پر بھی قدغنوں اور سخت سنسر شپ کی شکایات سامنے آئی۔ حکومت نے اپنے ناقدین اینکرپرسنز کومیڈی مالکان پر دباو ڈال کر ان کا پروگرام بند کروا دیا دوسری طرف حکومت کے خوش آمدی اینکرپرسن کو میڈیا مالکان پر دباؤ ڈال کر پروگرام کروایا جاتا ہے۔
پاکستان میں نجی نیوز چینلز کی دو دہائیوں پر محیط کارکردگی پر جہاں مختلف آرا پائی جاتی ہیں وہیں بعض مبصرین کے نزدیک مجموعی طور پر پاکستان میں صحافت کا معیار بہتر ہونے کے بجائے بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ چند خوش آمدیدی صحافی ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ناکام حکومت کو بھی کامیاب دکھاتے ہیں۔ اے آر وائی جیسے چینل جو پچھلے دور میں پٹرول کی قیمت ایک روپے بڑھتی ہے تو اس کو پٹرول بم قرار دیتے ہیں۔ لیکن تبدیلی آنے کے بعد 25 روپے بڑھ جانے پر کہتے ہیں کہ صرف 25 روپے قمیت بڑھا کر وزیراعظم عمران خان نے ملک میں پٹرول کی قلت ختم کردی، صحافتی زبان میں اسے زرد صحافت بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ آج کل پاکستان میں خوش آمدیدی چینلز اور خوشامدی میڈیا اینکر پرسن و صحافیوں کی وجہ سے عام ہوچکی ہے۔
انٹرنشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں دنیا بھر میں جو صحافی قتل ہوئے ان میں عراق، میکسیکو اور فلپائن کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے جہاں اس عرصے میں 138 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی جانچ کرتا ہے، اس کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال کے دوران 148 ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ اب صحافیوں کے لیے خطرناک ترین جگہ بلوچستان یا قبائلی علاقے نہیں بلکہ اسلام آباد ان کے لیے خطرناک ترین شہر بن چکاہے۔ کیونکہ صحافیوں کے خلاف 148 واقعات میں سے 51 اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس دوران سات صحافی قتل ہوئے سات پر قاتلانہ حملے ہوئے، پانچ کو اغوا کیا گیا اور 25 گرفتار ہوئے، 15 کو زدو کوب کیا گیا جبکہ 27 پر مقدمات درج کئے گئے۔ چند ہفتے پہلے صحافی اسد طور کو ان کے فلیٹ میں زد وکوب کیا گیا۔ اس سے پہلے سینیئر صحافی ابصار عالم کو اسلام آباد میں ان کے گھر کے سامنے گولی ماری گئی اور پچھلے سال جولائی میں مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا۔ یہ سارے واقعات اسلام آباد میں ہوئے۔ کیمروں میں ریکارڈنگ کے باوجود ملزمان ابھی تک قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ ان تینوں حالیہ واقعات کے پیچھے کون ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والے ہر وہ صحافی جو ابھی تک بچا ہوا ہے اسے معلوم ہے کہ کون سی فالٹ لائن ہیں جو کراس نہیں کرنی، لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی قلم اور آواز کی حرمت پر لبیک کہتے ہیں بس ایسے صحافی ہی طاقتور اداروں اور مافیا کا نشانہ بنتے ہیں
حق گوئی اور سچ لکھنے والا پھر اپنے کام سے جاتا ہے۔ لیکن خوشامد کرنے والے جھوٹ بولنے والے گیلے تیتر عمران ریاض خان جیسے اپنی جگہ پکی کر لیتے ہیں اور محلوں جیسے گھر بھی بنا لیتے ہیں۔