پاکستانی فلموں کے کچرے کے ڈھیر میں ایک اور اضافہ ‘نابالغ افراد’

0
46

تحریر: حنیف چوہان

کیسی افسردہ اور درد ناک سوچ ہے کہ ہزاروں روپیے کوڑا ہوجائیں اور دیکھنے کو کیا ملے ‘نابالغ افراد’ ان ستم گروں، بے رحم ظالموں کو اتنا بھی خیال نہیں کہ ان کی اپنی ہی کشتی ڈوبی جاتی ہے پھر بھی لگے ہوئے ہیں اس میں سوراخ پہ سوراخ کرنے۔ کہانی کا تو ڈھونڈنے سے بھی پتا نشان نہیں ملتا چند بے سروپا اور بہت ہی ٹوٹے پھوٹے واقعات جمع کرکے فلم بنانے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا فلم ایسی ہوتی ہے۔؟خوبصورتی مفقود نابالغ افراد پرانی شکستہ شہرت ‘نامعلوم افراد’ کے عنوان سے لوگوں کو بہکاکر سینما تک لانے کا چھل کپٹ حالانکہ وہ کون سے سپر ہٹ والے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب رہی۔ پھر بھی ازلی ڈھٹائی سے اسے بھی دوبار بنایا دوسری بار تو قوم کو کچھ نہ کچھ عقل آہی گئی اور منھ کی کھانی پڑی۔

اس کے باوجود اس سے ملتا جلتا عنوان۔ دھوکا دینے کا سلیقہ بھی نہیں ہے ان نادانوں میں۔ عقل تو سرے سے جیسے بیچ کھائی کوئی بتائے کیا ہے اس ‘نابالغ افراد’ میں۔ دو ڈراﺅنے بدشکلے لونڈے جو چہروں سے پورے بالغ دکھتے ہیں۔ ان میں تو ایسی کشش بھی نہیں دکھائی پڑتی کہ ایل جی بی ٹی کیو کے کچھ پوشیدہ ممبران اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کو ہی ہزاروں روپے کی قربانی دینے کو آمادہ ہوسکتے۔ ہزاروں کے ٹکٹ اوپر سے سینما تک پہنچنے میں بھی ہزاروں کا کرایہ اور پیٹرول خرچ ہوتا ہے وہ الگ۔ منھ کے ذائقے کے لئے لوازمات جو فلم کے انتہائی بور کردینے والے مناظر سے نمٹنے کا سہارا بھی ہوتے ہیں آپ جانتے ہیں ان کے بغیر فلم کہاں دیکھی جاسکتی ہے وہ بھی پاکستانی فلم الامان الحفیظ!۔

ایسی بے تکی فلم بنانے والوں کو کسی نہ کسی محاسبے کے کٹہرے میں کھڑے کرنے کا کوئی تو بندوبست ہونا چاہیے۔ بھیا نہیں بنائی جاتیں معیاری اور دلچسپ فلمیں تو کوئی اور کام کیوں نہیں کرلیتے۔ حکومت کاہے تماشائی بنی ہوئی ہے نہ تو اس کا فلموں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی قابل ذکر تعاون حتیٰ کہ ملک کے بینکس فلمیں بنانے کو قرضہ بھی آسانی سے نہیں دیتے۔ تب پھر حکومت کو چاہیے عوام کا پیسا اور وقت خراب ہونے سے روکنے کا کوئی بندو بست کرے۔ ایسی فلمیں بنانے اور دکھانے سے تو بہتر کے کہ اس ملک میں اور کئی چیزوں کی طرح فلم انڈسٹری کو بھی بند کردیجے احسان ہوگا اس دکھیاری عوام پر۔
جو پہلے ہی سرکاری احسانات کے بوجھ تلے دب کر کراہ رہی ہے۔ جیسے یہ احسان کیا کم ہے کہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ پر چوکسی سے مامور ہے۔ روزانہ دھڑا دھڑا لوگ لُٹ رہے ہیں ڈاکو دن دھاڑے دندناتے پھرتے ہیں مگر حکومت نے عوام کے جان ومال کے حفاظت کی قسم کھا رکھی ہے۔ تہیہ کرکے اطمینان سے بیٹھی ہوئی ہے۔ کیا محنت کی کمائی ان پست معیار کی گھٹیا فلموں پر ضائع نہیں ہورہی؟ کیا پیسے کے اس زیاں کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔

نبیل قریشی کی ‘ایکٹر ان لا’ دیکھ کر یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ پاکستان کو بہت عرصے بعد ایک ایسا فلمی ڈائریکٹر میسر آگیا ہے جو کم سے کم ٹی وی ڈراموں کے ڈائریکٹروں سے بہت بہتر ہے۔ جس کے شوٹ کئے ہوئے مناظر فلم کے لگتے ہیں، ٹی وی ڈرامے کی بوباس نہیں آتی ان میں سے۔ ورنہ انڈسٹری کا اصل بھرکس تو ان ڈرامے بنانے والوں نے نکالا ہوا ہے۔

کوئی بتائے فلم بناتے ہوئے کہانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو کوئی نابالغ افراد میں سے کہانی تلاش کرکے دکھائے۔ دو فرسٹریشن کے مارے لونڈے عجیب عجیب حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا کہ کیوں؟ کیا آفت پڑی ہوئی ہے۔ ساری فلم ان کے ساتھ ہونے والے واقعات پر مبنی ہے بنا کسی باقاعدہ کہانی کے، ایسے چلتی رہتی ہے کہ ٹی وی کا ڈراما اس سے بہتر ہوتا اگر اسے ٹی وی کا ڈراما بنا کر پیش کیا جاتا۔

اس کے بعد ان سے زیادہ بد ہئیت ان کا کزن (موٹا پلپلا) نازل ہوجاتا ہے۔ اب باقی کی بو العجبیاں اس کی معیت میں جلوہ افروز ہوتی ہیں نہ اس موٹے بندے سے کوئی مزاحیہ ایکٹنگ کرائی گئی نہ ہی کوئی ایک آدھا مکالمہ اس نے ایسا بولا کہ کم سے کم ہنسی تو دور مسکراہٹ ہی ہونٹوں کو چھوکر گزر جاتی۔ ایسے بے ڈول انسان کو فلم کا حصہ بنانے کی ضرورت کیا تھی طرفہ تماشا یہ کہ جو ایک ابلا ناری (لڑکی) دوچار مناظر کے لئے فلم کا حصہ بنائی گئی۔ وہ بھی نری اندھی نکلی۔ ان دونوں مناسب و واجبی جسمانی ساخت رکھنے والے لونڈوں کو چھوڑ کر وہ اس بے نقشے کے آدمی موٹے کزن کے ساتھ بھاگ گئی۔ ارے کیا اندھیر مچا ہوا ہے۔

فلم کو محض وی سی آر سے جڑے ناقابل برداشت واقعات کی خاطر اسی 80 اور نوے کی دھائی میں فلمایا گیا جیسے کوئی پیرئیڈ فلم ہے۔ اسی اور نوے کی دھائی کے اوائل میں جب گھر گھر وی سی آر چلا کرتے تھے اور مفلسی اور مذہب کے مارے گھروں میں یہ نعمت ایزدی کبھی کبھار کرائے پر لاکر پڑوسی ملک کی فلمیں دیکھی جاتی تھیں (ساری زندگی میں ایک ایسا آدمی نہیں ملا جس نے یہ اقرار کیا ہو کہ وہ وی سی آر پاکستانی فلمیں دیکھنے کی خاطر کرائے پر لایا ہو یا تو پڑوسی ملک کی فلمیں دیکھی جاتی تھیں یا پھر اشلیل فلموں سے ہوس پرستی کی تسکین کی جاتی تھی۔) اور یہ دونوں لونڈے چونکہ نئے نئے جوانی کی سر حدوں میں داخل ہوئے ہیں لہٰذا ان پر ایک ایسی مستی ٹوٹی پڑ رہی ہے جس کا ٹھیک سے اظہار بھی نہیں کیا گیا ہے۔ اس عمر میں اکثر نوجوانوں پر مستی سر چڑھ کے بولتی ہے۔ محض اس ایک پہلو کو پیش کرنے کے لئے فلم کو دھائیوں پیچھے کے منظرنامے میں لے جاکے دھکیل دینا سراسر عقل اور جمالیات دونوں کے لئے صف ماتم بچھا نے جیسا ہے۔

ایک بار ناظر کی مشکلات اور ڈوبی ہوئی انڈسٹری کی عائد شدہ ذمہ داریوں کے تناظر میں فلم کو دیکھ لیتے تو خود آگہی مل جاتی کہ ایسی کچرا فلم بنانا اور پھر ناظرین کو دکھانا کیسا درد ناک اور شرمندہ کردینے والا تجربہ ہوسکتاہے۔ فلم کے آخری منظر میں ایک کوڑے دان دکھایا گیا ہے جس پر اردو میں لکھا ہوا ہے کہ ‘کچرا یہاں پھینکیں’ سچ کہوں تو نابالغ افراد نامی اس فلم کا یہی منظر ایک کھری سچائی کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ فلم کو اس ڈبے میں ڈال دینا چاہیے تھا!۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں