لڑکے رپورٹرز اور وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

0
156

تحریر: کامران شیخ

وہ بہت پریشان تھا مشکل یہ تھی کہ بس ‘وہ’ اس کا فون نہیں اٹھارہا تھا مگر ‘کسی اور’ کا اٹھا رہا ہے، اس کی پریشانی یہ بھی تھی کہ اکثر بلکہ ہمیشہ وہ اس کا فون نہیں اٹھاتا کسی اور کا مگر فورًا اٹھاتا تھا۔

وہ مجھے کراچی پریس کلب کے باہر ملا روٹین کی باتیں شروع ہوئیں تو کہنے لگا یار ان لوگوں سے بڑا پریشان ہوں دفتر کہتا ہے خبر نکالو جلدی نکالو کبھی ان ‘لوگوں’ سے بات کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن وہ فون ہی نہیں اٹھاتے ان کو میسج کرتے رہو جواب نہیں دیتے میں تو تنگ آگیا ہوں، سوچ رہاہوں کہ (ج) تبدیلی کرالوں کیونکہ اب صحافت میں صرف ‘انہی’ کا فون اٹھایا جاتا اور ان ہی کو خبر دی جاتی ہے۔

میں اس کی پریشانی تو سمجھ چکا تھا مگر تفصیل سے جاننے کے لیے اس سے مزید استفسار کیا تو وہ بالآخر پھٹ پڑا کہنے لگا یار کامران بھائی آپ اور ہم لڑکے ہیں نا بس یہ وجہ ہے آپ ابھی کروائیں کسی خاتون رپورٹر، اینکر سے فون تو ابھی اگلے ہی لمحے جواب مل جائیگا بلکہ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خاتون صرف واٹس ایپ میسج کریں تو جواب سیلفی کے ساتھ آتا ہے، جس میں اپنی لوکیشن بھی بتائی جاتی ہے اور یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ بہت عرصہ ہوگیا، آپ چکر تو لگائیں وہ غصے سے لال ہورہا تھا اور میں خوب ہنس رہا تھا میری ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ میں بھی ‘لڑکا رپورٹر’ ہوں نا۔۔ ۔ اور اپنے علاوہ کئی ‘لڑکے رپورٹرز’ کا یہ دکھ سن چکا ہوں۔

وہ وزراء ہوں یا مشیر، بیورو کریٹس ہوں یا پولیس افسران سب ہی خاتون رپورٹرز کو سب سے پہلے خبر دینے کی کوشش میں بعض اوقات ایسے بھنڈ کردیتے ہیں کہ ان کے میسجز، اسکرین شاٹس بھی مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔

سب سے زیادہ خواتین رپورٹرز سے بیورو کریٹس اور سر فہرست پولیس افسران متاثر ہیں کوئی میل رپورٹر یاد کرے تو میٹنگ اور مصروفیات کی فہرست گنوادی جاتی ہے لیکن صنفِ نازک کے لیے یہ بڑا رسک لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور پھڑ پھڑاتے الگ ہیں۔

کراچی کے سوائے چند افسران کے علاوہ اکثریت کا یہی رویہ ہے بالکل اس جملے کے مصداق کہ ‘وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ’ شہر میں تعینات ڈپٹی کمشنرز ہوں یا اسسٹنٹ کمشنرز، کسی محکمے کے سیکریٹری ہوں یا اسپیشل سیکریٹری، ڈی آئی جی سے لیکر ایس پی اور اے ایس پی رینک کے تمام ہی افسران بہت ذمہ داری اور پوری ایمانداری سے خواتین رپورٹرز، اینکرز کو خبریں دینا ان کے صرف ‘ڈئیر’ یا ‘بات سنیں’ کے میسج پر ‘لٹو’ ہوجانا لازم و ملزوم سمجھتے ہیں اور پھر بیچارا مرد رپورٹر صرف ہلاتا رہ جاتا ہے ہاتھ اور پکڑا رہ جاتا ہے موبائل۔۔۔۔۔

یہاں میں ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز یا اس سے کم رینک کے افسران کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو بیچارے مرد رپورٹر کی باتیں بھی سن لیتے اور جواب بھی دے دیتے ہیں مگر نہ جانے یہ ‘ینگ لڑکے’ بالخصوص پی ایس پی افسران، اور ان کی طرح دیگر نہ جانے کیوں اتنے شوقین مزاج ہیں۔

بعض افسران تو باقاعدہ پکڑے جاچکے ہیں ذو معنی میسج کرتے یا پھر فحاش باتیں کرتے ہوئے کچھ افسران تو میڈیا کے سامنے بے نقاب بھی ہوچکے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پکڑے نہیں جاتے ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مرد رپورٹرز کے پاس نہ صرف ساری معلومات ہے بلکہ اکثر کے پاس تو اسکرین شاٹس بھی محفوظ ہیں، آپ کا خواتین کو خبریں دینے کا سیکرٹ کوئی سیکرٹ نہیں اور ان خبریں دینے کے عوض حاصل کی جانیوالی خدمات بھی زبان زدِ عام رہتی ہیں۔

تو جب اس نے مجھے کراچی پریس کلب کے باہر کھڑے ہوکر غصے کی حالت میں یہ سب کچھ بتایا تو میں اس لیے بھی ہنسا کہ میرے پاس بھی کافی اسکرین شاٹس اور خفیہ معلومات محفوظ تھی اور پھر اس کا دکھ سننے کے بعد جب اپنے آپ کو کھنگالا تو معلوم ہوا کہ مرد رپورٹر متاثرین میں، میں خود بھی شامل ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں