پیپلز پارٹی کا اپنی حکومت کے خلاف احتجاج- مذاق یا مجبوری؟

0
16

تحریر و تجزیہ: اشتیاق سرکی

پاکستان پیپلز پارٹی، جو کسی زمانے میں پاکستان کے غریبوں اور متوسط طبقے کی آخری امید سمجھی جاتی تھی، آج سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ کبھی اس کے جلسوں میں انقلاب کی گونج سنائی دیتی تھی، اب وہ چند اضلاع تک محدود ہو کر اپنے ہی سائے سے خوفزدہ نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جس پارٹی کی بنیاد رکھی، وہ ایک نظریاتی تحریک تھی، مگر آج یہ محض ایک خاندانی کاروبار میں بدل چکی ہے، جہاں اصولوں کی جگہ مفاہمت، اور عوامی خدمت کی جگہ ذاتی مفادات نے لے لی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں یہ جماعت پورے ملک میں عوامی مقبولیت رکھتی تھی۔ ان کا اندازِ سیاست، انقلابی سوچ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے دیے گئے نعرے ہر خاص و عام کے دل میں گھر کر گئے تھے۔ قومی خودمختاری، روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی حقوق، اور ایک عوامی فلاحی ریاست کا خواب اس جماعت کی پہچان تھی۔ بھٹو نے ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائی، جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک مضبوط ریاست کے طور پر کھڑا کیا۔ مگر قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے؟ انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، اور یوں پیپلز پارٹی کی قیادت کا پہلا سنہری دور اختتام پذیر ہو گیا۔

بعد ازاں، بینظیر بھٹو نے پارٹی کو نئی زندگی دی اور آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کی قیادت کی۔ انہوں نے دو بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی، لیکن ہر بار ان کی حکومت کو قبل از وقت برطرف کر دیا گیا۔ اس کے باوجود، وہ عوام میں مقبول رہیں اور پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی جماعتوں میں شامل رکھا۔ لیکن 2007 میں جب انہیں شہید کر دیا گیا تو یوں لگا جیسے پیپلز پارٹی کی اصل روح بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو گئی۔ اس کے بعد آصف علی زرداری نے قیادت سنبھالی، اور پارٹی ایک نئی مگر افسوسناک سمت میں چل نکلی۔

آصف زرداری کی قیادت میں سیاست کو ‘مفاہمت’ کے نام پر ایک ایسا کھیل بنا دیا گیا جس میں جیت صرف اقتدار میں رہنے کا نام تھا، چاہے عوام کی قسمت میں محرومی اور مایوسی ہی کیوں نہ لکھی جائے۔ 2008 میں حکومت ملی، مگر عوام کو کچھ نہ ملا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2013 میں پارٹی وفاقی سیاست سے تقریباً ختم ہوگئی۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس کا وجود ختم ہوتا چلا گیا، اور صرف سندھ میں حکومتی وسائل، بیوروکریسی اور جاگیرداروں کی مدد سے کسی نہ کسی طرح اقتدار بچایا گیا۔

اب دلچسپ موڑ یہ آیا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے جا رہی ہے! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ احتجاج آخر کس کے خلاف ہے؟ اگر صوبائی حکومت کے خلاف ہے تو وہاں پیپلز پارٹی خود بیٹھی ہے، اگر وفاق کے خلاف ہے تو صدرِ پاکستان بھی انہی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہیں۔ یعنی، حکومت اپنی ہی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خود اپنے خلاف سڑکوں پر نکلے گی! دنیا کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی اور لطیفہ ملے جہاں حکومت اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرے۔

اس بار احتجاج دریائے سندھ پر بننے والے پنجاب کے 6 نئے کینالوں کے خلاف ہو رہا ہے، جنہیں پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے پانی پر ڈاکہ قرار دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ آخر اتنے عرصے سے کیوں دبایا گیا؟ جب وفاق میں اتحادی حکومت تھی، تب یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا پیپلز پارٹی نے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اس معاملے کو پس پشت ڈالے رکھا اور اب جب عوامی دباؤ بڑھا تو احتجاج کا ڈرامہ رچانے پر مجبور ہو گئی؟

یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا یہ احتجاج کسی عوامی مسئلے کے حل کے لیے ہے یا صرف اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ایک کوشش؟ اگر احتجاج عوامی مسائل کے حل کے لیے ہے تو پچھلے 15 سال سے سندھ پر راج کرنے کے باوجود بنیادی سہولتوں کا فقدان کیوں ہے؟ کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ اور اندرون سندھ کے دیگر شہر آج بھی پسماندگی کا شکار کیوں ہیں؟ اسپتالوں کی حالت ابتر، تعلیمی نظام برباد، پانی کی قلت اور کرپشن عروج پر کیوں ہے؟ آخر یہ کس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے؟ کیا پیپلز پارٹی خود اپنی کارکردگی کے خلاف سڑکوں پر آ رہی ہے؟

کبھی بھٹو کا نعرہ تھا کہ ‘طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں’، آج پیپلز پارٹی کا حال یہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اقتدار اور مفادات ہیں۔ اگر آج ذوالفقار علی بھٹو یا محترمہ بینظیر بھٹو زندہ ہوتے تو شاید وہ اس حکومت کو دھکے دے کر نکال باہر کرتے، لیکن آج کی پیپلز پارٹی کے پاس نہ وہ ہمت ہے، نہ وہ جرات، اور نہ ہی عوامی حمایت۔

یہ احتجاج دراصل اس حقیقت کو مزید عیاں کرے گا کہ پیپلز پارٹی اب ایک نظریاتی جماعت نہیں بلکہ ایک ایسے کاروباری ادارے میں تبدیل ہو چکی ہے جو صرف اقتدار کے رسیا افراد کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے محض ایک ڈرامہ ہے، جس کا مقصد عوام کو مزید بے وقوف بنانا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اب بھی اس تماشے کا حصہ بنیں گے؟ یا وہ پیپلز پارٹی کو تاریخ کے اوراق میں دفن کر کے آگے بڑھ جائیں گے؟

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں