تحریر: محمد سہیل مظہر
سطحی ذہن پیچیدہ باتوں سے جلد اکتا جاتا ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ اور رٹے رٹائے نظریات پر قائم رہنے پر عافیت محسوس کرتا ہے۔ چاہے وہ فلسفہ ہو، سیاست ہو یا دینی موضوعات پر بحث ہو۔
کیا سیاست ایک برا فعل ہے؟ تو میرا ذاتی جواب ہوگا کہ نہیں۔ البتہ پاکستان جیسے ملک جہاں سیاست میں افہام و تفہیم اور دور اندیشی کی جگہ شدت پسندی اور مذاکرات کے عدم استحکام نے لے لی ہے وہاں پہ فاشسٹ اور غیر جمہوری حکومتوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے ناکہ عوام کو ہی سیاست سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دینا شروع کر دی جائے۔ عوام کو سیاست کی سوجھ بوجھ سے دور رکھنا بھی انہیں غلام بنانے کے مترادف ہے۔
سٹیو جابز جوکہ ایپل کمپنی کے بانیوں میں سے ہیں کہ مطابق “لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہے بجائے اس کے کہ انہیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ انہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے”۔
اس لیے کم از کم میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کو سیاست میں دلچسپی، اس میں افہام و تفہیم اور مذکرات کے تمام پہلوؤں کی طرف رغبت دلاؤں تاکہ آپ اپنے آپ کو سیاسی غلام بننے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے بچا سکیں۔
شروع دن سے ہی عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ “سیاستدان تو ہوتے ہی کرپٹ ہیں” اور بد قسمتی سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس تاثر کی بناء پر انہیں سخت سے سخت سزائیں دی گئیں۔ منتخب وزرائے اعظم کو غیر آئینی طریقوں سے ہٹایا گیا اور یہاں تک کہ کچھ تو قتل بھی ہوئے۔ اس پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے غیر آئینی کاموں کی تشہیر کے لیے بہت سے لکھاری، تجزیہ کار اور دانشور بھی مل جاتے ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ تعلیم کو اپنا شعار بنائیں تاکہ حق و سچ کی تلاش کے لیے آپ کو کسی اور کا سہارا نہ لینا پڑے۔ کتابوں کا مطالعہ کریں۔ تاریخ، مذہب، کلچر، ادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کو سمجھیں اور آگے بڑھیں۔