تحریر: مقبول خان
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے تمام سرکاری دفاتر میں پانی کی پلاسٹک بوتلوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا ہے، تاکہ پلاسٹک کے کچرے کو کم کیا جاسکے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے تمام اجلاسوں میں پانی کی پلاسٹک بوتلیں فراہم کرنا بند کردی جائیں۔ مراد علی شاہ کی اس ہدایت کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس کے اجلاس میں فیصلے پر عملدر آمد کی فوٹیج میں میز پر منرل واٹر کی پلاسٹک بوتلوں کی بجائے شیشے کے جگ اور گلاس دکھائی دیے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس فیصلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تمام شرکا کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دفاتر اور عوامی مقامات سے پلاسٹک بوتلوں اور دوسری پلاسٹک اشیاء کا استعمال ترک کردیں۔ اس موقع پر وزیرعلیٰ نے ماحولیاتی بہتری کے لیے شیشے اور دیگر دھاتوں کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پلاسٹک کچرے سے گٹر اور ندی نالے بند ہوجاتے ہیں اور کراچی کا سیوریج نظام متاثر ہوتا ہے، اس سے سمندری آبی حیات کو خطرات لاحق ہوتے ہیں ہمارے ساحل اور ہمارا سمندری ا ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ قدرتی وسائل کے تحفظ اور ٓآلودگی سے پاک مستقبل کےلیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم ماحول دوست معمولات کو فروغ دیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف ابتدا ہے۔ ہم فضائی آلودگی ختم کرنے اور مجموعی فضا کو سازگار بنانے کےلیے پرعزم ہیں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں جگ اور گلاس کو متعارف کرانے کا مقصد سرسبز سندھ کی جانب اقدامات کی ایک مثال قائم کرنا تھا تاکہ تمام سرکاری اداروں اور عوامی مقامات سے پلاسٹک کچرے سے نمٹا جا سکے۔اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہوگا کہ پہلے مرحلے میں صوبہ سندھ کے تمام سرکاری اداروں، محکموں اور بلدیاتی اداروں کے دفاتر میں بھی پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال کو یقینی بنانے کے لئے متعلقہ محکموں کو سربراہوں کو نہ صرف احکامات جاری کئے جائیں بلکہ ان احکامات پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ دوسرے مر حلے میں نیم سرکاری اداروں اور نجی کمپنیوں میں بھی اس پر عملدرآمد کرایا جائے۔ پلاسٹک کی بوتلوں کے ساتھ پولی تھن کے شاپر کے استعمال پر بھی عائد پابندی پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرایا جائے، اس سے بڑھ کر پلاسٹک کی بوتلوں اور پولی تھن کے شاپرز کی مینو فیکچرنگ کو روکنے کے اقدامات کرنا اور اس کا متبادل تلاش کرنابے حد ضروری ہوگا۔
اگر ہم پاکستان میں پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہ حقائق کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر پلاسٹک کا سالانہ فی کس اوسط استعمال بہت زیادہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک میں ہر سال تقریباً 20 ملین ٹن ٹھوس کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ اس 20 ملین ٹن سالانہ کوڑے میں سے تقریباً 60 فیصد کوڑے کے طور پر پھینک دیا جانے والا پلاسٹک ہوتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پلاسٹک کے اس کوڑے کا سالانہ حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات ملک میں تحفظ ماحول کی کوششوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کی سابق وفاقی وزیر شیری رحمان کے مطابق ملک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے کوڑے کا حجم کے ٹو جتنے اونچے دو پہاڑوں کے برابر بنتا ہے۔ شیری رحمان نے گزشتہ سال یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دینے کے بجائے اس کا متبادل تلاش کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے ۔کیونکہ اگر ابھی سے ٹھوس اور موثر اقدامات نہ کیے گئے، تو 2040 تک ملک میں پلاسٹک کے کوڑے کی سالانہ پیداوار 12 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔ 2022 میں پاکستان میں پلاسٹک کا ایسا تقریباً تین ملین ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوا تھا۔ یہاں اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہوگا کہ پاکستانی عوام اتنے زیادہ پلاسٹک ویسٹ کی وجہ کیوں بنتے ہیں اور اس عمل کے اصل محرکات کیا ہیں؟۔
اس حوالے سے’پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کا کہنا تھا، ”سب سے پہلی بات عام لوگوں کا رویہ ہے، جو پلاسٹک کی ایسی مصنوعات زیادہ استعمال کرتے ہیں، جن کا بعد میں نہ تو کوئی دوبارہ استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی جن کی پیداوار کا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہوگا کہ ماضی میں لوگ خریداری کے لیے جاتے تھے تو ان کے ہاتھ میں کپڑے کے تھیلے ہوتے تھے۔ اب یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں موبائل فون تو ہوتا ہے لیکن شاپنگ کے لیے کپڑے کا تھیلا ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لیے پلاسٹک بیگز کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم دراصل اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ اور اسی سہولت پسندی کے باعث ہم پلاسٹک کے ذریعے زمین اور اس کے ماحول کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔ 2019 میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی تھی، جو جزوی طور پر موثر بھی ثابت ہوئی۔ اب بڑے بڑے شاپنگ مالز میں مشہور برانڈ سٹورز نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اب باقی سب جگہوں پر بھی ان بیگز کا استعمال ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اسے فی الفور ختم کرنا تو ممکن نہ ہوگا، لیکن آلودگی کی شرح کم کر نے کے لئے پلاسٹک کی بوتلوں پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ پلاسٹک بیگز پر پہلے سے عائد پابندی کے احکامات پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرایا جائے۔
ماحولیات اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی قیادت میں 1973 سے ہر سال اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ معاشرے میں تحفظ ماحول سے متعلق شعور و آگاہی کو فروغ دیا جائے اور دنیا بھر کے ممالک کو ان کی ذمہ داریوں سے متعلق جھنجوڑا جائے۔ عالمی یوم ماحولیات 2023 کی میزبانی کوٹ ڈی آئیوری کر رہا ہے۔ رواں سال تحفظ ماحول کی مہم کا نعرہ پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے لازمی اقدامات ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے نصف صرف ایک بار استعمال کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں سے 10 فیصد سے بھی کم ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ 19-23 ملین ٹن پلاسٹک جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں جاتا ہے، یہ تقریباً 22 سو ایفل ٹاورز کے وزن کے مساوی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک” پلاسٹک کے چھوٹے ذرات جن کا قطر 5 ملی میٹر تک ہوتا ہے”خوراک، پانی اور ہوا میں اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرہ ارض پر ہر شخص ہر سال 50 ہزار سے زیادہ پلاسٹک کے ذرات نگل جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بار استعمال ہونے والا پلاسٹک انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتا ہے اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندر کی تہہ تک ہر ماحولیاتی نظام کو آلودہ کرتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ پلاسٹک آلودگی کے حجم، ہمہ گیر موجودگی اور اس کے منفی اثرات پر بین الاقوامی خطرے کی گھنٹی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پلاسٹک کرہ ارض کے سب سے دور دراز اور بصورت دیگر قدیم خطوں تک پہنچ چکی ہے، سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیوں کے اندر مائیکرو پلاسٹک اور آرکٹک برف کے اندر پلاسٹک زرات کی موجودگی، یہ سب خطرے کے الارم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پلاسٹک فضلہ ہر سال 01 ملین سے زائد سمندری پرندوں اور 01 لاکھ سے زائد سمندری ممالیہ کی موت کا سبب بنتا ہے۔ اسی باعث ماہرین پلاسٹک آلودگی کو 21ویں صدی کے عظیم ماحولیاتی چیلنجوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں، جس سے ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس ضمن میں مختلف ممالک کی جانب سے پلاسٹک فضلے کے بہتر انتظام کی پالیسیاں بہت بڑا فرق لا سکتی ہیں کیونکہ فی الحال تقریباً 100 ملین ٹن پلاسٹک فضلہ یا تو بدانتظامی کا شکار ہے یا اسے ماحول میں رسنے کی اجازت ہے، جو کہ 2060 تک دوگنا ہو جائے گا۔ پلاسٹک فضلے کا بہتر انتظام کرہ ارض کو گرم کرنے والی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار کو بھی کم کر سکتا ہے جبکہ عدم توجہ عالمی حدت کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے دستیاب سائنسی اور تکنیکی حل کے ساتھ، حکومتوں، کمپنیوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اس بحران کو حل کرنے کے لئے اقدامات کو بڑھانا اور تیز کرنا ہوگا۔