تحریر: ڈاکٹر اصغر دشتی
کتاب غزہ: نسل کشی کی داستان ایک ایسی اینتھولوجی ہے جسے فاطمہ بھٹو اور گوا، انڈیا سے تعلق رکھنے والی برطانیہ میں رہائش پذیر مصنفہ اور صحافی سونیا فلیرو نے مرتب کیا ہے۔ 19 ستمبر 2025 کو حبیب یونیورسٹی، کراچی میں اس کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ یہ کوئی عام کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا زندہ زخم ہے جو کاغذ پر پرنٹ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں گواہیاں، شاعری، رپورٹس، فوٹوگرافی اور آرٹ یکجا کیے گئے ہیں تاکہ غزہ کی تباہی اور فلسطینیوں کی زندگی کے المیے کو ایک علمی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی آرکائیو میں محفوظ کیا جا سکے۔ یہ اینتھولوجی قاری کو صرف معلومات فراہم کرنے تک محدود نہیں بلکہ فلسطینیوں کی آواز کو عالمی سطح پر سنانے اور عالمی طاقتوں کی خاموش شمولیت کو بے نقاب کرنے کی بھی ایک کوشش ہے کیونکہ اینتھولوجی بکھری ہوئی آوازوں، ذاتی بیانات، شاعری اور کہانیوں کو اکٹھا کرتی ہے۔ اس طرح یہ عوامی یادداشت کو باضابطہ شکل دیتی ہے اور اسے تاریخ کے سرکاری یا سامراجی بیانیے کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے۔ یہ کتاب عام مبصرین کی تحریروں کا مجموعہ نہیں بلکہ اُن آوازوں کا ذخیرہ ہے جو خود اس آگ میں جلی ہیں۔ اس میں شہید ہونے والے شاعر بھی ہیں جن کے الفاظ خون سے تر ہیں ایسے زندہ شاعر بھی ہیں جنہوں نے اپنے دکھوں کو لفظوں میں ڈھالا ۔ وہ ڈاکٹر بھی ہیں جنہوں نے معصوم زخمی بچوں کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھا۔ اور وہ صحافی بھی ہیں جنہوں نے ملبے تلے دبی سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریریں صرف بیان نہیں بلکہ زندہ گواہیاں ہیں۔ ایسی گواہیاں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
احمد النوق (فلسطینی صحافی) اس المیے کے سب سے بڑے زندہ گواہ ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیلی بمباری سے ان کے خاندان کے21 افراد شہید ہوئے جس میں ان کے والد، بھائی، بہن اور بہنوں کی بیٹیاں شامل تھیں۔ اس ذاتی صدمے کے باوجود وہ خاموش نہیں ہوئے بلکہ دنیا کو یہ بتانے کے لیے اپنی آواز بلند کی کہ غزہ میں مرنے والے صرف اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے “وی آر ناٹ نمبرز” نامی پلیٹ فارم قائم کیا تاکہ نوجوان فلسطینی اپنی کہانیاں خود دنیا کو سنا سکیں۔
غزہ کی مصنفہ اور مترجمہ نور ال یعقوبی اس کتاب کی سب سے دردناک آوازوں میں سے ایک ہیں۔ الازہر یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے والی یہ نوجوان خاتون آج ملبے اور خاکستر کے درمیان اپنے الفاظ سے گواہی دے رہی ہیں۔ نور کی تحریروں میں صرف بمباری اور خونریزی کا ذکر نہیں بلکہ اس ہولناک ہتھیار کا بھی انکشاف ہے جسے اسرائیل نے منظم طریقے سے استعمال کیا ہے نور لکھتی ہیں کہ “غزہ میں روٹی کا ایک ٹکڑا یا پانی کی ایک بوند بھی جنگ کا حصہ بن گئی ہے۔ بھوک صرف جسم کو نہیں روح کو بھی توڑ دیتی ہے۔” ان کا یہ بیان تیر کی طرح دل میں پیوست ہوجاتا ہے اور یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ کتاب کوئی عام تحریر نہیں بلکہ زندہ لاشوں کی طرح سانس لیتی فلسطینی قوم کی چیخ ہے جو بھوک، پیاس اور موت کے محاصرے میں بھی اپنی گواہی قلمبند کر رہی ہے۔
مریم البرغوثی فلسطینی-امریکی مصنفہ اور صحافی ہیں جنہوں نے برزیت یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ایڈنبرا، برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ عالمی سطح پر معروف سیاسی تبصرہ نگار، محققہ اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں جن کے تجزیے الجزیرہ، گارجین، نیو یارک ٹائمز اور بی بی سی جیسے مرکزی میڈیا میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فلسطینی تجربات اور اسرائیلی تسلط کے خلاف بیداری کو منظر عام پر لانے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔
اس کتاب میں مریم البرغوتی نے ویسٹ بینک میں بسنے والے صیہونی آبادکاروں کے تشدد کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ دکھاتی ہیں کہ یہ تشدد محض چند انتہاپسند گروپس کا عمل نہیں بلکہ ایک منظم اور ریاستی پشت پناہی سے چلنے والا سسٹم ہے جو سیٹلر کالونیلزم (سیٹلر کلونیوازم) کے تحت مقامی فلسطینی آبادی کو خوفزدہ کر کے زمینوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ویسٹ بینک میں آبادکاری اور تشدد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہتھیار ہیں جو سامراجی طاقت اور نسل پرستانہ تسلط کو دوام دینے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مریم کی تحریر میں ایک طرف فلسطینی عوام کے زخموں کی گونج ہے تو دوسری طرف صیہونی سیٹلر کالونیلزم کی نشاندہی۔ ان کا مطالعہ قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ یہ تسلیم کرے کہ ویسٹ بینک کی کہانی صرف مقامی جھڑپوں کی نہیں بلکہ ایک بڑے سیٹلر کالونیل منصوبے کی ہے جو نسل کشی اور قبضے کو روزمرہ کی حقیقت بنا چکا ہے۔
ایمان بشیر جو ایک فلسطینی صحافی اور مصنفہ ہیں “غزہ: نسل کشی کی داستان” میں ایک ایسے بچے کی کہانی کو بیان کیا ہے جس کا پورا خاندان اسرائیلی حملوں میں شہید ہوگیا۔ ان کی تحریر نہ صرف ذاتی غم و الم کا عکس پیش کرتی ہے بلکہ فلسطینی عوام کی اجتماعی یادداشت اور مزاحمت کی طاقت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ایمان بشیر نے اپنی قلم سے ہر لفظ کو ایک چیخ اور ہر جملہ کو ایک خاموش فریاد بنا دیا ہے۔ وہ ہمیں دکھاتی ہیں کہ غزہ کے بچے نہ صرف اپنے والدین، گھر اور اسکول سے محروم ہوئے بلکہ انہیں ایک ایسی دنیا میں چھوڑ دیا گیا جہاں ہر دن بقا کی لڑائی ہے۔ ان کے بیان میں بچوں کی بے بسی، گمشدہ معصومیت اور انسانی جذبات کا درد واضح طور پر جھلکتا ہے، اور قاری کے دل میں فلسطینی المیے کی حقیقت کو زندہ کر دیتا ہے۔
ان کی گواہی یہ بتاتی ہے کہ فلسطینی صرف مظلوم نہیں بلکہ وہ ہر سانس کے ساتھ اپنی شناخت اور آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایمان بشیر کی تحریر ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ ہر تباہ شدہ گھر، ہر کھوئی ہوئی زندگی اور ہر بچہ جو پیچھے رہ گیا فلسطینی قوم کی مزاحمت کی علامت ہے۔
کتاب میں مقتول فلسطینی شاعرہ، ناولسٹ اور حقوق نسواں کی سرگرم اواز حبہ ابو نادہ کو خصوصی مقام دیا گیا ہے جو اکتوبر 2023 میں اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے گھر میں شہید ہو گئی تھیں۔ حبہ ابو نادہ صرف ایک شاعرہ نہیں تھیں وہ فلسطینی مزاحمت اور انسانی جذبات کی ایک زندہ علامت تھیں۔ ان کی شاعری میں فلسطینی زندگی کے درد، امید، اور بقا کی جدوجہد کے جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔
ایڈیٹرز فاطمہ بھٹو اور سونیا فلیرو نے حبہ ابو نادہ کی شاعری اور یاد کو کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ فلسطینی آواز بمباری اور تباہ کاریوں کے باوجود زندہ رہے۔ حبہ ابو نادہ کی تحریر ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیروں میں روشنی بکھیرتا ہے اور قاری کو فلسطینی المیے کی شدت سے آگاہ کرتا ہے۔ کتاب میں ان کی شاعری محض ادبی حسن کے اظہار کے طور پر نہیں بلکہ ایک احتجاجی اور تاریخی دستاویز کے طور پر شامل کی گئی ہے۔ ہر شعر ایک گواہی ہے کہ فلسطینی عوام کی شناخت، ثقافت اور جذبات صرف ظلم و جبر سے نہیں مٹ سکتے اور حبہ کے الفاظ بمباری کی گونج میں بھی اثرات قائم رکھتے ہیں اور یہ یاد دلاتے ہیں کہ فلسطینی آواز کی قوت کبھی دبائی نہیں جا سکتی۔
یہ قدم ایڈیٹرز کی جانب سے محض ادبی روایت یا فنی محاسن کے اظہار کے طور پر نہیں بلکہ ایک پراثر سیاسی اور مزاحمتی اعلان کے طور پر اٹھایا گیا ہے جو واضح طور پر فلسطینی مزاحمت کے حق اور ان کی شناخت کے تحفظ کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اقدام بتاتا ہے کہ ہر گواہ، ہر شاعر، ہر شہید اور ہر یاد فلسطینی مزاحمت کی زندہ شاخ ہے اور دنیا کے طاقتور بم، قبضہ اور جبر بھی فلسطینی آواز کو خاموش نہیں کر سکتے۔ یوں فلسطینی ثقافت، جدوجہد اور یادیں محض یادگار نہیں بلکہ ایک طاقتور ہتھیار ہیں جو نسل کشی اور ظلم کے خلاف مسلسل بات کرتے رہیں گے۔ یہ کتاب غزہ کو سیٹلر کالونیلزم کے سیاق میں پیش کرتی ہے۔ آسٹریلوی نژاد برطانوی تاریخ دان اور اینتھروپولوجسٹ پیٹرک وولف نے اپنے معروف مقالے سیٹلر کلونیوازم اینڈ دی ایلیمینیشن آف دی نیٹیو (2006) میں وضاحت کی ہے کہ “سیٹلر کالونیلزم محض زمین پر قبضے کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسا مسلسل ڈھانچہ ہے جس کی بنیاد مقامی آبادی کے مٹانے (ایلیمینیشن) پر رکھی جاتی ہے اور غزہ میں جاری مظالم اسی ڈھانچے کی انتہائی شکل ہیں جہاں فلسطینی عوام کو نہ صرف فوجی بمباری اور محاصرے کے ذریعے جسمانی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ ان کی زمین، تاریخ، شناخت اور مستقبل کو بھی عالمی تسلط کے ایک بڑے پروجیکٹ کے تحت مٹایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ مغربی طاقتوں کے فراہم کردہ ہتھیاروں، اربوں ڈالر کی مالی امداد، سفارتی تحفظ اور خاموش تماشائی بنے رہنے کے رویے سے ممکن بنایا گیا ہے۔ غزہ دراصل اُس عالمی نظام کی علامت ہے جو سامراجی مفادات کے تحفظ میں مقامی آبادیوں کی قربانی کو جائز قرار دیتا ہے اور اس طرح نوآبادیاتی وراثت کو نئے سیاسی و عسکری روپ میں زندہ رکھتا ہے۔”
یہ نقطہ نظر قارئین کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ غزہ کا المیہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے تسلط اور نوآبادیاتی مظالم کا تسلسل ہے۔
یہ کتاب جینوسائڈ اسٹڈیز اور پوسٹ کالونیل تھیوری میں اہم بحثیں پیدا کرتی ہے۔ مصنفین غزہ کے تجربات کو عالمی تناظر میں رکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ فلسطینی المیہ صرف علاقائی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سیاسی، عسکری اور اقتصادی طاقتوں کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔
کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت اور انفرادیت اس کی اخلاقی بنیاد ہے۔ کتاب کی تمام رائلٹیز اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کو دی گئی ہیں۔ یو این آر ڈی اے وہی ادارہ ہے جسے امریکہ و مغربی طاقتوں نے جان بوجھ کر مالی امداد روک کر مفلوج کرنے کی سازش کی، تاکہ غزہ کے لاکھوں بے گھر اور محصور فلسطینی مزید بھوک، بیماری اور بے بسی کی اذیت میں دھکیل دیے جائیں۔ دراصل یو این آر ڈبلیو اے کو کمزور کرنا اسرائیلی نسل کشی کے منصوبے کا حصہ ہے جس میں مغربی حکومتیں برابر کی شریکِ جرم ہیں۔
یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ کتاب صرف اکیڈمک ایکٹیوٹی سے بڑھ کر ایک انسانی، سیاسی اور اخلاقی اپیل بھی ہے جو قاری کے شعور کو جھنجھوڑتی ہے، عالمی ضمیر کو للکارتی ہے اور ناانصافی کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا حصہ بننے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ کتاب مغربی قارئین کو غزہ نسل کشی میں ان کی حکومتوں کی شمولیت اور خاموشی پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔
کتاب غزہ: نسل کشی کی داستان ایک ایسی مستند کتاب ہے جو فلسطینی تجربات اور عالمی سازشوں کو علمی، نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب قارئین کے سامنے ایک ایسی ناقابل تردید سچائی رکھتی ہے کہ وہ تسلیم کریں کہ نسل کشی صرف وقوع پذیر نہیں ہوئی بلکہ یہ اب تک جاری ہے اور عالمی طاقتیں اس میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔