تحریر: محمد شعیب یار خان
انٹرنیٹ کی ایجاد کسی عجوبے سے کم نہیں جس نے بہت ہی قلیل وقت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےکر بنی نوع انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، اس وقت دنیا کےکسی حصے میں شاید ہی کوئی شخص موجود ہو جو اس سہولت سے مستفید نہ ہورہا ہو یہ ایک حیرت انگیز دریافت ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط اور تواناہوتی جارہی ہے، ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ سے متصل سوشل میڈیا بھی اپنے عروج پر ہے۔ مختلف قسم کی متعدد ایپلیکیشنز، ویب سائیٹس پر کروڑوں لوگوں کا مستقل تانتا بندھا رہنا، سوشل میڈیا کی کامیابی کا واضع ثبوت ہے۔ آج کل کی مصروف اور تھکا دینے والی زندگی میں ہر انسان بہت کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بروقت معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے لئے انٹرنیٹ پر موجود ویب سائیٹس یا ایپلیکیشنز بہت مددگار ثابت ہورہی ہیں، ہر قسم کی انٹرٹینمنٹ، انفورٹینمنٹ، نیوز، سیاحت، مذہب غرض زندگی سے متعلق ہر شعبے کی جانکاری میں سوشل میڈیا کا کردار اب بہت کلیدی ہوچکا ہے۔ پوری دنیا کی معلومات اب کمپیوٹر سے شروع ہوکر موبائل فونز میں سمٹ چکی ہے، زندہ رہنے والوں کے لئے موبائل انتہائی اہم جزو بن چکا ہے۔
انسان کے جینے مرنے شادی بیاہ، مذہب، رشتے، تعلقات سمیت تمام شعبے اب اس موبائل میں سمٹ چکے ہیں۔ پہلے روزگار کی تلاش میں لوگ بیرون ملک جایا کرتے تھے، ان سے اپنوں کا رابطہ بہت ہی مشکل تھا۔ اب ہر کوئی واٹس ایپ یا دیگر ایپس کے ذریعےایک دوسرے سے ہروقت مسلسل رابطے میں رہنےلگا طویل فاصلہ سمٹ کر انتہائی نزدیک ہوگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج انٹرنیٹ کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس حیرت انگیز ایجاد کی موجودگی ہمیں وہ فوائد کیوں نہ دے سکی جو ہماری زندگیوں میں تبدیلی یا سکون لا سکے یا اتنی عظیم ایجاد کے باوجود بھی آج انسان ایک مشین بنا ہوا ہے۔ مسائل میں کمی کے بجائے ان میں اضافہ آج پہلے سے زیادہ کیوں ہے۔؟ آج بھی ہر کوئی ایک دوسرے سے مزید فاصلے پر اور معلومات کے بڑے ذخیرے کے باوجود کم علمی اور جہالت پہلے سے زیادہ کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ تو نہیں کہ مذکورہ ذرائع معلومات قابل بھروسہ نہیں؟ صحیح غلط، مستند، غیر مستند بغیر تصدیق شدہ معلومات کی بہتات نے مستند علم کو کہیں مات تو نہیں دے دی؟ آج کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی ذریعے سے سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہنے، لکھنے کی مکمل آزادی رکھتا ہے جسے آزادی اظہار رائے کا نام دے دیا گیا ہے اور کوئی بھی معلومات جو سراسر جھوٹ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو جس کی کوئی بھی دلیل نہ ہو کسی کے ذہن کا فطور ہی کیوں نہ ہو وہ منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جانا مسائل کا سبب تو نہیں؟ کیا آج سوشل میڈیا پر حکومتوں کا کنٹرول نہ ہونا اور کوئی ضابطہ اخلاق نہ ہونا اس بڑے نقصان کی وجہ تو نہیں؟ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ انسانوں کے مسائل میں جن میں بےروزگاری میں کمی، آپس کے رابطوں کے ذریعے ایک دوسرے کا احترام کیا جانا، ہر ایک کو اپنے مذہب اور دیگر کی مطلوبہ معلومات اور اس سے متعلق اختلاف میں کمی اور تعلیم میں اضافے کا سبب، ایک دوسرے کی جان و مال کی قدر اور اہمیت میں اضافہ ملکوں کے آپس کے اختلاف دور ہونےچاہیئے تھے لیکن سوشل میڈیا ایک عام صارف جس کی تعداد کروڑوں میں ہے اس کے لئے فقط جھوٹ، فضول تفریح، وقت کے ضیاء اور متعدد مسائل میں اضافے کا سبب بن چکا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم انسانوں نے ہر بہترین اور افادیت اور آسانیوں سے بھرپور استعمال کی چیزوں کا ایسے ہی ستیا ناس کیا ہے۔
کیا ضروری نہیں ہے کہ اب بھی ہم سنبھل جائیں اور اس بہترین ایجاد کو بہترین طریقے سے استعمال میں لائیں اس کے لئے حکومتوں کو بھی کچھ سختیاں کرنی ہوں گی حدود و قیود متعارف کرانے ہوں گے۔ ہر مسئلے کا حل سوشل میڈیا پر موجود تو ہے مگر اس کی تصدیق کے لئے متعلقہ فورمز کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اس بہترین ذریعہ کو ناکارہ بنانے سے بچانے کے لئے جعلی اور غیر مستند خبروں کو لگام دینا بہت ضروری ہوتا جارہا ہے۔ ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار جس بے باکی سے اور بغیر کسی تصدیق سے کررہا ہے یہ انتہائی خطرناک ہوتا جارہا ہے ہونا تو یہ چاہئیے کہ ہم انٹرنیٹ کو بہترین ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی افادیت سے فائدہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اٹھائیں اور ہر گزرتے دن بڑھتے مسائل کے حل تلاش کریں، اس پر کام کریں ورنہ کچھ شک نہیں کہ ہم اس بہترین ایجاد کو صرف تفریح کا سامان بنا کر ضایع کرتے رہیں گے۔