بقلم: سید منور عالم
سلیم صافی کا متعصب مسلمان کبھی سویا ہی نہیں تھا۔ طالبان کے قصیدوں اور جماعتی بیانیہ کو ہمیشہ تقویت دینے والا آج کہہ رہا ہے کہ فوج کو بدنام کیا جارہا ہے۔
چار سال قبل 2018 کے الیکشن سے قبل جو مہم اس ملک میں فوج کے خلاف چلی، ڈائس سے مریم نواز اور قیادت جو کچھ فوج اور اداروں کے لئے مسلسل کہتے رہے اس پر صافی صاحب کے قلم نے پیمپر پہن لیا تھا۔ فضل الرحمان الیکشن میں شکست کے بعد جو کچھ فوج اور اداروں کے لئے کہتے رہے اور اسلام آباد میں لانگ مارچ اور دھرنوں کے دوران جو کچھ وہ کہتے رہے وہ صافی صاحب کی یادداشت سے کہیں گم ہوگیا ہے۔
الیکشن کے فورا بعد ال پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ صافی صاحب نے نہ کبھی پڑھا نہ کبھی اس کو احسان فراموشی کہا۔ اب جب گالیاں دینے والوں میں عمران خان کا اضافہ ہوا ہے تو صافی صاحب کا مسلمان جاگ گیا ہے حق و باطل یاد آرہا ہے۔ اب صرف نیوٹرل نہ کہنا ساڑھے تین سال کی گالیوں اور تبرا پر بھاری ہوگیا۔ اب مریم صاحبہ کا جلسوں میں فیضو، غفورا اور باجوہ کہہ کر مخاطب کرنا قصہ پارینہ ہوگیا۔ مولانا کی باقاعدہ دھمکیاں اور للکار شربت کی طرح شریں ہوگئی ہیں۔ نیوٹرل کی تشریح انہیں احسان فراموشی لگنے لگی ہے۔ ساتھ ساتھ فرط جذبات میں وہ یہ بھی لکھ گئے کہ چیف اور ڈی جی نیوٹرل ہوگئے ہیں اور اداروں کے خلاف ساڑھے تین سال میں کیا جانے والا تبرا تاریخ سے حذف کردیا گیا ہے اور ادارے نے وہ گالیاں تسلیم کرلیں ہیں جو مولانا اور مریم دیتے رہے۔
صافی صاحب نے خاموشی سے یہ بات بھی کردی کہ مسلسل گالیاں اور لعن طعن کی جدوجہد رنگ لاسکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اتنا سب کے بعد جاکر نیوٹرل ہوتی ہے تو خان صاحب کو چاہیے کہ آج سے پھر دوبارہ اداروں پر شدید تیرا شروع کریں کیوں کہ اب بیانیہ یہ ہے کہ گالیاں دینے والوں کو جمہوری طریقوں سے اقتدار منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ احسان فراموشی بلکل بھی نہیں۔ ایک بات اور صافی نے کہہ دی ہے کہ وہ نیوٹرل بلکہ بھی نہیں کیونکہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے۔
یہ تبرا کی روایت اور ریت اگر ٹھیک ہے تو جس کو اقتدار میں آنا ہے وہ یہی کرے۔ گالیاں دیتا جائے اقتدار لیتا جائے۔ (عمران خان اب مریم اور مولانا کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں یہ ہے جانور والا تجزیہ)۔