مراسلہ: شاہد نعیم
ان دنوں پاکستان میں ‘سائفر’ کی بڑی دھوم ہے خبروں میں، سائفر ہوتا کیا ہے اور یہ کس طرح اہم عہدیداروں کو بھیجا جاتا ہے۔ بی بی سی نے اس معاملے کو سمجھنے کے لیے دفتر خارجہ کے افسران، سابق سفارتکاروں اور قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔
اکتوبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق سائفر کسی بھی اہم اور حساس نوعیت کی بات یا پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ کار ہے، جس میں عام زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ‘سائفر اسسٹنٹ’ کہا جاتا ہے۔ یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔
اب سائفر کے معاملے کو سمجھنے کے لیے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے دفتر واشنگٹن کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن کی امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو سے واشنگٹن میں ایک کھانے پر غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات میں امریکی عہدیدار نے پاکستان سے متعلق اہم امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اسد مجید نے یہ سمجھا کہ یہ گفتگو انتہائی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا اس سے متعلق دفتر خارجہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر نے سفارخانے میں تعینات سائفر اسسٹنٹ کے ذریعے اس ملاقات کے بارے میں اپنے پیغام کو کوڈ لینگوئنج میں بدلا اور اسے ’مخصوص ذریعے‘ سے اسلام آباد میں خارجہ سیکریٹری کے نام ارسال کر دیا۔ یہ مخصوص ذریعہ کوئی مشین فیکس، ٹیلی گرام، صوتی پیغام یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارومدار کسی بھی ملک کے زیر استعمال اس ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے جو وہ اس سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ یوں یہ سائفر پیغام اسلام آباد پہنچ گیا۔
یہاں یہ سائفر جیسے ہی موصول ہوا تو پھر دفترخارجہ نے اپنے سائفر اسسٹنٹ کی مدد طلب کی اور پھر اسے ڈی کوڈ کر لیا گیا۔ اس سائفر کو ڈی کوڈ کروانے کے بعد دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سائفر کو ہر صورت چار اہم شخصیات کو بھیجنا لازمی ہے۔ یہ سائفر وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجا گیا۔
دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سائفر کی یہ تمام کاپیاں اصلی تصور کی جاتی ہیں اور ایک مہینے کے اندر سائفر کو واپس دفتر خارجہ بھیجنا ہوتا ہے۔ یہ کام اس وجہ سے بھی احسن انداز میں ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں بھی دفتر خارجہ کے اہم دو سے تین افسران تعینات ہوتے ہیں جو اس ‘کمیونیکیشن’ کو یقینی بناتے ہیں۔
بہ شکریہ بی بی سی اُردو