تحریر: محمد شعیب یار خان
پاکستان خطے کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اپوزیشن کرنا حکومت کرنے سے زیادہ فائدے مند اور آسان عمل ہے۔ ہمارے اس پیارے ملک میں حکمرانوں کی نااہلی کے سبب عوامی مسائل کے انبار لگے ہیں اور حکومت کرنے والوں کے پاس وسائل کی کمی کا رونا ان کی بقا کا ضامن رہا ہے مگر اپوزیشن کا منجن خوب بکتا ہے۔ اس ملک کی عوام کئی دہائیوں سے سکون کے متلاشی کسی بھی انقلاب سے عاری اپنے بنیادی حقوق سے نابلد ہیں جو جمہوریت کو ووٹ دینے سے زیادہ نہیں جانتے نہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں کوئی بھی چابی کے کھلونے کی طرح گھما لیتا ہے اور یہ ناچتے رہتے ہیں۔
کئی سالوں سے آئی ایم ایف کا پیٹ بھرتے یہ ںظاہر زندہ عوام صرف موجودہ اور پچھلی حکومتوں کی عیاشیوں اور آئی ایم ایف سمیت دیگر دینداروں کا قرض چکانے کی ذمہ داری انتہائی احسن طریقے انجام دے رہی ہے۔ ہمارے معصوم سیاستدان اقتدار کے حصول کے لئے اپنی بے بس عوام کا خون پیتے پیتے ڈریکولا ہوچکے ہیں جو خون کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس ملک میں کوئی مستقل ہے تو وہ مہنگائی ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتی ہر چیز ریاستی توجہ کی منتظر ہے لیکن حکومتوں کو عوامی مسائل، عوامی پریشانیوں کے سوا سب یاد رہتا ہے عوام کے لئے اچھے دنوں کا لالی پاپ ہر وقت تیار رہتا ہے۔
ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں عوام شیر، بلے اور تیر کے نشان سے آزماتی رہتی ہیں شیر نواز شریف ہیں جو کئی سالوں سے عوام کا درد لئے لندن میں مقیم ہیں وہاں سے پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کے ووٹرز ان کی واپسی کی امید میں روزانہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ میاں صاحب لندن میں پاکستانیوں کو خوار ہوتا دیکھ رہے ہیں نہ جانے کب آئیں گے کیونکہ چھوٹے شیر، شہباز شریف نے کرسی تو حاصل کی مگر عوام کو مہنگائی کی چکی میں ایسا پیسا جسکی مثال نہیں ملتی، چھوٹے میاں صاحب کی پھرتیاں اور دعوے سب کے سب مہنگا چینی، آٹا، دال، گوشت، بجلی، پٹرول بہا کر لے گیا۔ پھر پیپلز پارٹی کا تیر ہے جو سیاسی چالوں میں تو فٹ بیٹھتا ہے مگر سیدھا عوام کی پیٹ میں پیوست ہوچکا ہے۔ لاقانونیت، ہوشربا مہنگائی اقربا پروری اور سندھ کی عوام کی نہ ختم ہونے والی محرومیوں کا قصہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تیسرے نمبر پر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا بلا جس کے چاہنے والے پی ٹی آئی چیئرمین کی اقتدار کی شدید خواہش کی نظر ہوچکے ہیں، ان کے چاہنے والوں کو بھی سوائے کھوکھلے وعدوں دعووں اور خوابوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ سچ واقعی کڑوا ہوتا ہے اور آج کا سچ یہ ہے کہ عوام روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی بجلی، گیس پیٹرول، اشیائے خورونوش، پیدا ہونے سے مرنے تک کے بیش بہانہ رکنے والی مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں خ۔ انہیں کسی پر بھروسہ نہیں اب تو لوگ ڈکٹیٹرز کے مارشل لاء کو اس نکمی جمہوریت سے زیادہ عزت دینے لگے ہیں۔
عوام کو اپنے بچوں کی تعلیم سے غرض ہے جو بے تہاشا مہنگی ہوچکی ہے، دو وقت کی روٹی چاہئیے جو اب ایک وقت کی بھی مشکل ہوچکی ہے، امن و امان چاہئیے اپنے جان مال کا تحفظ چاہیئے، جسے فراہم کرنا اس جمہوریت کے بس میں دکھائی دیتا۔عوام اب چاہتے ہیں کہ ان کے سیاستدان، حکمران، اسمبلیوں میں بیٹھے موجیں کرتے نمائندے عوام کے ٹیکس سے مزے کرنے والے قربانیاں دیں، اپنے اخراجات کو محدود کریں بلکہ ختم کریں۔ واقعی عوامی خدمت کریں عوام کا بوجھ کم کریں، عوام کو زندہ رہنے کے مواقع دیں نہ کہ ان کی باقی ماندہ کھال بھی نوچ ڈالیں۔ عوام میں برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ان کا غصہ اب ظاہر ہونا بھی شروع ہوچکا ہے، عوام کو اس سے سروکار نہیں کہ کون کس کے تعاون سےحکومت بناتا ہے، کون کس ادارے کا سہارا لیتا ہے عوام کو تو ماننا ہی ہے لیکن اب عوام کو جوابدہ چاہئیے ہیں، جو اقتدار سنبھالے وہ ذمہ داری لے اپنی کوتاہیاں نالائقیاں اداروں پر ڈالنے سے بہتر ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر موجیں کرے۔ اب یہ سچ شدید کڑوا ہے مگر سچ ہے کہ عوام کو اس سے کیا سروکار کہ کون حکمرانی کررہا ہے اسے اپنے مسائل سے نجات دلانے والا چاہئیے، وہ کوئی سویلین شیر، بلا، تیر ہو یا پھر وردی میں ملبوس جوان، اب پانی سر سے اوپر جاچکا ہے عوام کو مسیحا چاہئیے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ان کا مستقل علاج کرے۔ کھوکھلے نعرے جھوٹے وعدے، دعوے اب عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔