تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
چوّن فیصد لوگ موبائل پر بات کرنے کو قریب بیٹھے کسی عزیز، رشتہ دار، یار دوست کی طرف متوجہ ہونے پر ترجیح دیتے ہیں۔
مغرب میں طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ اپنے شریک حیات کی نسبت موبائل کو ترجیح دینا بتائی جا رہی ہے۔ انگلش میں اس کو ‘پھبنگ’ کہتے ہیں۔
گزشتہ ویک اینڈ پر ایک دوست کے ساتھ مری جانے کا پروگرام بنا۔ اسلام آباد سے دوست کو ایف 6 سے دن دس بجے اٹھانا تھا۔ پروگرام تھا کہ لنچ مری میں کر کے واپس آجائیں گے۔ پروگرام کے مطابق صبح 10 بجے میں اسلام آباد پہنچ گیا اور یاسر گھر کے باہر ہی کھڑا تھان ہم لگ بھگ 10 بج کر دس منٹ پر مری کے لئے نکل گئے۔ موسم ہلکا گرم تھا اور حالات حاظرہ پر گپ شپ کرتے، سفر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ تقریبا 11 بجے ہونگے، ہم مری ایکسپریس وے پر تھے کہ اچانک یاسر نے بوکھلا کر کہا یار میرا فون۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر روک لی اور ہم نے گاڑی کے اندر فون کی تلاش شروع کردی۔ میں نے اپنے فون سے یاسر کا نمبر ڈائل کیا، بیل جارہی تھی لیکن فون گاڑی میں نہیں تھا۔ یاسر کا رنگ تقریبا پیلا پڑھ چکا تھا- پھر اسے یاد آیا کہ فون تو وہ گھر پر ہی چھوڑ آیا ہے اور آگے جانے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ میں نے گاڑی موڑی اور لگ بھگ ساڑھے 12 بجے گھر پہنچ گئے۔ یاسر اندر گیا، واپس آیا تو چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن اب مری کی طرف جانے کا وقت نکل چکا تھا پھر لنچ ہم نے پھر سپر مارکیٹ میں کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا واقع ہے کہ فون نہیں تو ہم کچھ بھی نہیں۔
ریاستوں کی حد بندی اور گھروں کی دیواریں تو انٹر نیٹ کب کا پھلانگ چکان اب تو انسانی ذہن کے اردگرد انٹرنیٹ نے ایسا جال بن دیا ہے کہ انسان کا اس جال سے باہر نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مردے کا زندہ ہو جانا۔
اب ہمیں وٹس ایپ، مصنوعی ذہانت، فیس بک اور انسٹا گرام کی دنیا میں ہی رہنا ہے۔ موبائل اور انٹر نیٹ کی دنیا، حقیقی دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ ہمیں ارد گرد، اپنے مشاہدے اور حسیات پر نہیں بلکہ ان مصنوعی تصویروں، خاکوں اور لفظوں پر زیادہ یقین ہے جو مشینوں نے بنائے ہیں۔
موبائل نے فاصلوں کو سمیٹا بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اتنا وسیع بھی کر دیا ہے کہ ساتھ بیٹھے انسان بھی ایک دوسرے سے ٹیکسٹ بھیج کر بات کر رہے ہیں۔ اب رشتے، مسائل، تکلیفیں اور دکھ اصلی ہیں لیکن ان کے حل سارے ورچوئل ہیں۔