تحریر: واحد خان
دانش اقبال علی محمد پاکستان کے بڑے بزنس مین خاندان کے چشم و چراغ ہیں گل احمد انڈسٹریز کا بٹوارہ ہوا تو ان کے حصے میں بھی ٹیکسٹائل ملز کے کچھ یونٹ آئے نیو جرسی، امریکہ سے کالج ختم کرنے کے بعد شارجہ یونیورسٹی آف امریکہ سے اپنا بی بی اے مکمل کیا اور پھر اپنے ابا کا چھوڑا ہوا بزنس سنبھال لیا۔
2012 میں گل احمد انرجی پرائیویٹ لمیٹیڈ بنائی اور بطورِ چئیرمن اپنا پاور پلانٹ لگایا فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا شروع کی اور کے الیکٹرک کو سپلائی شروع کردی۔
کچھ عرصے بعد ونڈ انرجی پر کام کیا اور مزید ایک پاور پلانٹ جو تقریباً 60 میگاواٹ پر مشتمل ہے اس کو بھی نیپرا کے ساتھ معاہدے کے بعد نیشنل گرڈ میں شامل کردیا اس طرح یہ تقریباً 100 میگاواٹ پر مشتمل آئی پی پیز کے مالک ہیں۔
بہرحال اس وقت ہمارا موضوع دانش اقبال علی محمد نہیں بلکہ ان کی اہلیہ نتاشہ ہیں جو 19 اگست کی شام عصر اور مغرب کے درمیان کارساز کی سروس روڈ کو استعمال کرتے ہوئے غالباََ اپنے گھر جارہی تھی یا گھر سے کہیں جارہی تھیں یقین سے کہنا تو مشکل ہے مگر بظاہر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ نشے بھی مبتلا تھیں اور اسی وجہ سے ان کی لینڈ کروزر ان سے بے قابو ہوگئی اور پھر ان کی گاڑی کی زد میں جو آیا کچلا گیا۔
آمنہ عارف جو اقراء یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور اپنے والد کے ساتھ شاید اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے ہی نکلی تھی موقع پر ہی دونوں باپ بیٹی نے دم توڑ دیا ان کے علاوہ مزید 4 لوگ اس حادثے کی زد میں آئے جن کی حالتیں نازک ہیں اور شاید ان میں سے بھی دو لوگ انتقال کرگئے ہیں۔
دانش اقبال پاکستان کے آئی پی پیز کے مالکان میں سے ایک ہیں جو سرکار ان کے پاور پلانٹ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی ان پلانٹس کا فارنزک آڈٹ نہیں کروا سکتی وہ بھلا ان کی بیگم پر ہاتھ ڈالنے کی اوقات کہاں سے لائے گی؟۔
سڑکوں پر گھومنے والے ہم اور آپ جیسے لوگ ان ‘ہستیوں’ کے سامنے کمی کمینوں سے زیادہ نہیں ہیں پولیس ان کی رکھیل ہے، قانون ان کی لونڈی ہے اور ریاست ان کی باندی اور یہ تینوں ہاتھ باندھے ان لوگوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔
مرنے والے اور زخمی ہونے والے مڈل اور لوئر مڈل کلاسئیے ان کی ایک ملین کی بھی مار نہیں ہیں، سندھ پولیس اپنے آقاؤں کے حکم پر ڈیل طے کرے گی ایف آئی آر تو ویسے بھی ابھی تک نہیں کٹی ہے اور کٹے گی بھی نہیں خون بہا کے نام پر مرنے والوں کے ریٹ طے کیے جائیں گے اور پھر وارثین اپنے پیاروں کو روند کر جانے والوں کو ‘دل سے معاف’ کردیں گے اور اس طرح ایک دفعہ پھر شیر اور ہرن جنگل میں خوشی خوشی رہنے لگیں گے۔