نام: مصعب طارق
پاکستان میں پانی کی موجودہ قلت ہر وقت پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو خاکم بدان ملک 2040 تک پاکستان سے ریگستان تک کا سفر طے کرے گا۔
پوری دنیا آہستہ آہستہ کامیابی کی سیڑھی پر چڑھ رہی ہے، لیکن ہم نے خود کو ہی برباد کردیا۔ در حقیقت، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بہت سے علاقوں میں صاف پانی کی کمی ہے۔ واسا، متعلقہ علاقائی حکومتیں اور پاکستانی صوبائی حکومتیں اس مہلک مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کر رہے ہوں گے۔ تاہم، جب تک کہ وفاقی حکومت اس مسئلے میں شامل نہیں ہوجاتی، پاکستان کے اس دیرینہ مسئلے کا حل تلاش کرنا مشکل نہیں بلکہ نامکمن ہو گا۔ حکومتیں، ادارے اور عوامی نمائندے سب کی اپنی جگہ ہے، لیکن ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہم نے پانی کی بچت میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ کیا ہم پانی کی بچت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یا ہم اس کے ضائع ہونے کے ذمہ دار ہیں؟ کار کو دھوتے وقت پانی استعمال کرنے میں کی جانے والی لاپرواہی جو ہوتی ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ ہم پور گھر کو اتنے ہی پانی سے دھو سکتے ہیں۔ ہم اپنے گھر کے سامنے یا صبح اور سہ پہر کے وقت دکان کے سامنے پانی ضائع کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم گھر کو دھوتے ہیں۔ غیر متوقع طور پر، ہم جو قیمتی پینے کے پانی کو ضائع کررہے ہیں وہ ملک کے بیشتر حصوں میں بہت کم بچا ہے۔ دماغ نے کبھی بھی اتنا نہیں سوچا کہ اگر ہم پانی کی بچت کریں تو پودے زندہ رہیں گے، انسان زندہ رہے گے اور زندگی زندہ رہے گی۔ ایک قوم کی حیثیت سے، ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ پریشانی اور تباہی نزول ہونے جا رہی ہے ہم پر صبح اپنے دانتوں کو برش کرتے وقت ٹونٹی بند کردینا ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ نہیں رہا۔ دانتوں کا برش منہ میں ہے، لیکن ٹونٹی ابھی بھی چل رہی ہے۔ جب ہم اپنے دانت صاف کرتے ہیں، تو ہم ٹونٹی چلاتے رہتے ہیں اور پانی ضائع کرتے ہیں۔ یہ لاپرواہی رکنی چاہئے۔ اپنے چہرے کو دھونے اور نہانے کے لئے بھی اتنا استعمال کریں جتنی ضرورت ہو۔
آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ ہمارے پڑوسی بھارت نے پاکستان میں بہنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر اپنی زراعت اور آبی ضرورت پوری کر لی ہے۔ اس کے برعکس، کئی مجوزہ ڈیموں کی مخالفت کرنے کے علاوہ، ہم نے پورے ملک میں قومی سطح پانی کے مسئلے حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا اور ان ڈیموں کی تعمیر کو سیاست کے حوالے کردیا گیا۔ سمجھ سے باہر کیا بات ہے کہ اگر ڈیم سے سارے پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے تو، مخالفین پاکستان کے ساتھ کس طرح ہمدرد ہوسکتے ہیں؟ صورتحال ایک نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ اگر آج، اب اور اس وقت میں، ہم نے داتی طور پر پانی کو بچانے کے لیے کوشش نہیں کی، تو براہ کرم میں آپ کو اس بات یقین دہانی کرواتا ہوں کہ کسی بھی دشمن کو ایٹم بم، ہائیڈروجن بم وغیرہ گرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کیونکہ ہم پانی کی کمی کی وجہ سے قحط اور آفات کا شکار ہو کر جود اپنی موت مر جاۓ گے، اس ممکنہ آفات کا سامنا کرنے کے لیے اور اس سے بچنے کے لیے آیئے ہم سب عہد کرتے ہیں۔ ہم پانی ضائع نہیں کریں گے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پیاس سے مرنے سے بچائیں گے۔ ہم پاکستان کو بچائیں گے۔