کراچی (مدثر غفور) پاکستان اسٹیل ملز میں ایڈہاک انتظامیہ کے کرپٹ افسروں کا راج تاحال جاری، ایڈ ہاک انتظامیہ کے افسران نے نیب کے نوٹس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، جوائنٹ سیکٹری پیداوار اور قائم مقام سی ای او اسد ماہنی نے نیب نوٹس کی اپنی ہی تشریح کرتے ہوئے ٹی ایس او ادریس خان کو زبانی احکامات دیتے ہوئے ریٹرنچڈ ملازمین کو بقایاجات کی آدائیگی رکوا دی جبکہ پیسہ بینک میں رکھ کر انٹرسٹ کھانے لگے۔
پانچ برس قبل حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان اسٹیل مل کو ادارے کے ملازمین کی نوکری سے جبری چھانٹی اور ان کو رقم کی ادائیگی کے لیے 18 ارب روپے فراہم کیے گئے تھے جو کہ پاکستان اسٹیل ملز کے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) میں پاکستان اسٹیل ملز بن قاسم برانچ، کراچی کے اکائونٹ نمبر 3101516733 میں دو قسطوں میں لان دیا گیا، پہلا لان 4 ہزار 544 ملازمین کیلئے دیا تھا اور دوسرا لان وی ایس ایس ریٹائرڈ ایمپلائز کے ڈیوز کیلئے دیا تھا، اس میں سے 1400 ملین روپے اکائونٹ میں رہ گئے ہیں جو 1500 ریمیننگ ملازمین کیلئے تھے جنہوں نے اپنی این ڈی سی جمع نہیں کی۔ اس رقم سے ڈیڑھ ارب روپے ابھی بھی اسٹیل مل کے اکاؤنٹ میں موجود ہے مگر نہ تو مزید ملازمین کو ادائیگی کی جا رہی ہے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بقایاجات ادا کیے جا رہے ہیں، اس بات کا انکشاف آڈٹ رپورٹ 2022-23 میں انکشاف کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے اسٹیل مل انتظامیہ کا (ڈی اے سی) ڈیپارمنٹل آکائونٹس کمیٹی میں موقف تھا کہ 1 ارب 41 کروڑ روپے مزید 1652 ملازمین کی ادائیگیوں کے لیے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
اسٹیل مل انتظامیہ کے اجنبی کے مطابق دو برس گزرنے کے باوجود اب بھی 30 سے ملازمین جنہوں نے تمام شعبوں سے نو ابجیکشن سرٹیفیکیٹس لے لیے ہیں ان کو ابھی تک ادائیگی نہیں کی جا رہیں، انتظامیہ نے ملازمین کے نام پر گورنمنٹ کا فنڈ بھی رکھا ہوا ہے اور جن ملازمین نے این ڈی سی کروائی ہے ان کو پیسے بھی نہیں دے رہے جو گراس وائلیشن ہے، اور جو بقایا بینک میں ڈیڑھ ارب روپے بچ گئے وہ انٹرسٹ کے پرپز کیلئے انگیج رکھے ہوئے ہیں اور اس پر انتظامیہ اسٹیل ملز کے چند افسران منافع لے رہے۔

جوائنٹ سیکریٹری پیداوار اور قائم مقام سی ای او نے اسد ماہنی نے ٹی ایس او ادریس خان کو این ڈی سی کرنے والے ملازمین کی پیمنٹ رکوانے کی اپررول کے بغیر زبانی احکامات دیے، جس پر ٹی ایس او ادریس خان نے ای میل کرکے پیمنٹ رکوا دی۔ جبکہ دوسری جانب این ڈی سی کروانے والے ملازمین کی پیمنٹ پر آڈٹ پیرا بھی بنا ہے اور آڈٹ پیرا میں انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ ہم نے ملازمین کے ڈیوز کیلئے رکھا ہے اور جب ملازمین این ڈی سی کروائیں گے تو ہم ان کو پیمنٹ جاری کریں گے، اگر پیمنٹ نہیں کی تو یہ لوگ ہمارے خلاف کورٹ میں کیس کریں گے۔
اسٹیل ملز میں 2010 میں کانٹریکٹ ڈیلی ویجز ایمپلائز ریگولر ہونے پر نیب انکوائری کررہی تھی اور نیب نے 14 سال بعد کیس کو کلوز کردیا۔

گزشتہ سال 29 سمتبر 2024 اتوار کے روز ٹی ایس او ٹو سی ای او ادریس خان نے سابق سی ایف او عارف شیخ کو ای میل کے کرتے ہوئے لکھا کہ ‘جن ملازمین کو 2010 میں ریگولر کیا گیا تھا، اور جن کا کیس نیب میں زیر تفتیش ہے، ان کو حتمی واجبات کے تصفیہ کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی’۔ جبکہ نیب کراچی کی طرف سے 29 نومبر 2024 کو بنام چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز کو لکھے گئے لیٹر نمبر 242156/1/آئی ڈبلیو-IIVسی او-بی/ٹی-3/نیب(کے)/2019/کے-5762 کے پیرا 3 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ‘این اے اے، 2022 کے 31-بی(1) کے تحت اس تفتیش کا خاتمہ صرف مذکورہ الزام سے متعلق ہے۔ یہ کسی بھی معاملے پر اثر انداز نہیں ہوگا، اگر پہلے سے انکوائری/تفتیش کے تحت ہو اور آرڈیننس کے تحت کوئی نیا مقدمہ شروع کرنے سے نہیں روکے گا’۔ تاہم نیب کے نوٹیفکیشن کے باوجود سی ای او نے 2010 میں ریگولر ہونے والے ریٹرنچڈ ملازمین کے ڈیوز روک دیئے۔ اب جبکہ نیب نے کیس کلوز کردیا ہے لیکن ابھی تک سی ای او نے ڈیوز پیمنٹ دینی شروع نہیں کی جبکہ ان کے ڈیوز کے پیسے پہلے ہی حکومت پاکستان نے دیئے ہوئے ہیں جو بینک اکائونٹ میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اسٹیل ملز نے پیمنٹ ابھی تک روکی ہوئی ہے یا پھر انتظامیہ کے کرپٹ افسروں کے اپنی زاتی انٹرسٹ ہوں۔

اسٹیل ملز انتظامیہ کا آڈٹ میں یہ بھی موقف ہے کہ 18 ارب روپے کی مذکورہ رقم حکومت کے طرف سے گرانٹ نہیں تھی بلکہ وہ قرضہ تھا جو کہ 20 برس کے لیے دیا گیا تھا اور اس کو واپس کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی اسی لیے بقیہ ڈیڑھ ارب روپے بینک میں رکھے گئے ہیں تاکہ اس کا منافع آتا رہے تو وہ قرضے کی رقم کی واپسی میں مددگار بھی ثابت ہوسکے مگر انتظامیہ آڈٹ کو یہ جواب نہ دے سکی کہ ڈیڑھ ارب تو آخر کار ملازمین کو دینے ہی ہیں تو کیوں پھر اب تک 30 سے زائد ملازمین کو نوکری برخاستگی کے بقایاجات اور ریٹائرڈ ملازمین کے بقایاجات کو ادا نہیں کیا گیا۔

انتظامیہ اسٹیل ملز کے فنائنس ڈیپارٹمنٹ کے اجنبی کے مطابق یہ رقم سابق سی ایف او عارف شیخ نے سابق انچارج اے اینڈ پی ریاض منگی اور سابق غیرقانی تعینات لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان سے ملی بھگت کے ساتھ یہ رقم بینک میں رکھی تھی جسے موجودہ انتظامیہ کے چند افسروں نے جاری رکھا ہوا ہے نہ پیسے ملازمین کو دے رہے بلکہ انٹرسٹ کھا رہے تھے جس کو انٹرسٹ کی کمائی کا زریعہ بنایا ہوا تھا۔ آڈٹ پیرا میں اسٹیل ملز انتظامیہ کے کرپٹ افسروں نے خود جواب دیا ہے کہ ہم نے ملازمین کے ڈیوز کیلئے پیمنٹ رکھی ہے جبکہ ابھی بھی ملازمین کو ہیمنٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔
بینک اجنبی کے مطابق اسٹیل ملز ریٹرنچڈ ملازمین کے بقایا ڈیڑھ ارب روپے اکائونٹ میں موجودہ ہیں جس کی انتظامیہ اسٹیل ملز کے چند افسران انٹرسٹ/سود لے رہے ہیں۔ انتظامیہ کے افسران اب تک 70 کروڑ روپے سے زائد کی رقم لے چکے ہیں۔
حکومت پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ کو مذکورہ رقم ریٹرنچڈ ملازمین کیلئے دی گئی تھی تاہم اگر مذکورہ رقم کو اس مد میں استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی قانونی جرم ہے اور نیب آئی ایف اے سمیت نیب کا نام استعمال کرنے پر اداروں کیلئے بڑا اسکینڈل بنتا ہے۔
رینٹرنچڈ ملازمین نے ملکی تحقیقی اداروں نیب اور ایف آئی اے سے مذکورہ معاملے کی شفاف تحقیقات کرنے کی اپیل کی ہے۔