طلبہ یونینز کی بحالی (حصّہ اول)

0
36

تحریر: مقبول خان

سابق طالب علم رہنما مسرور احسن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں، وہ جب سے سینیٹ کے رکن بنے ہیں طلبہ، اساتذہ، مزدوروں اور غریبوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو سینیٹ کی تعلیم سے متعلق قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔سینٹر مسرور احسن نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کمیٹی کے اراکین کے سامنے بھرپور دلائل دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کے ذریعہ نوجوانوں کی لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ نیز طلبہ یونین پر پابندی کے بعد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کے متحارب گروپوں میں زیادہ تصادم ہوئے۔ ان کا یہ بھی مدعا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کے انتخابات فوری طور پر منعقد کرانے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے واضح کہا کہ ایچ ای سی کو یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کی بحالی پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور ایچ ای سی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو بھیج دیا تھا۔ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں ہیں۔ یوں ایک دفعہ پھر کمیٹی کے تمام اراکین نے طلبہ یونین کی بحالی پر اتفاق رائے کیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ طلبا و طالبات کو تعلیمی اداروں یونین سازی کا حق دلانے کےلئے دو سال قبل سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے، اس قراداد کی حمایت میں صرف پیپلز پارٹی کے ارکان نے ہی حمایت نہیں تھے، بلکہ اس میں تحریک انصاف سمیت حکومت مخالف تمام ہی جماعتوں کے ارکان بھی شامل تھے۔ حکومت سندھ نے صوبہ میں طلباء یونینوں کی بحالی کےلئے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کابھی فیصلہ کرلیا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے ایک قانونی مسودہ تیار کرنے کے بعد سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائیگا۔ اگر سندھ حکومت صوبہ میں طلباء یونینز بحال کرنے میں سنجیدہ ہے، تو تین دہائیوں سے زائد پابندی کا شکار طلباء یونینز کی بحالی کی امید کی جاسکتی ہے۔

طلباء یونینز کی بحالی بلا شبہ بیشتر طلباء و طالبات کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ اور یونین سازی طلباء کا قانونی، آئینی اور جمہوری حق بھی ہے، اگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنے صوبہ میں طلباء یونینز کو بحال کردیا تو اس کی سیاسی ساکھ مستحکم ہوگی، اور اس کا ترقی پسند رخ مزید واضح ہوگا۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں سے ہی جمہوریت اور جمہوری اقدار اور روایات کی جڑیں پھوٹتی اور پروان چڑھتی ہیں، یہیں سے مستقبل کے رہنما، ڈاکٹر، انجینئر اور مختلف شعبوں کے ماہرین اوپر آتے ہیں۔

پاکستان میں موروثی اور کرپٹ قیادت سے نجات پانے کےلئے ضروری ہے کہ طلباء یونینز کو بحال کیا جائے تاکہ متوسط اور نچلے طبقے سے قیادت اوپر آسکے۔ یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ طلباء یونینز ہی کی بدلت ماضی میں شیخ رشید، جاوید ہاشمی، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، جہانگیر بدر، اور الطاف حسین اور کئی دیگر سیاسی رہنما مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے، یہ طلباء یونیز ہی کی بدولت قومی سیاست کے افق پر جوہ گر ہوئے تھے۔ لیکن اب جو نئے لوگ با لخصوص پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کراچی سے ارکان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، وہ منتشر ذہن کے حامل ہیں، جمہوری روایات، اقدار سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں، اور نچلی سطح پر بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ جبکہ ماضی میں طلباء یونینز سے وابستہ تعلیم یافتہ نئے لوگ ارکان اسمبلی منتخب ہوا کرتے تھے۔ وہ جمہوری روایات سے آشنا ہوتے تھے، وہ اپنے انتخابی حلقے کے عوام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ برسوں گذر جانے کے باوجود سیا سی میدان میں موجود ہیں۔

طلباء یونینز پر پابندی اگر چہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں عائد کی گئی تھی، جنرل ضیاء کی فوجی حکومت کو آمریت کے قبرستان میں دفن ہوئے تین عشروں سے زائد عرصہ گذر چکا ہے، اس کے بعد جمہوریت کے علمبردار میاں نواز شریف تین مرتبہ اور شہید بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں، آصف علی زرداری پانچ سال صدر مملکت کے منصب پر فائز رہے، مگر جمہوریت کے ان چیمپیئنز کے دور میں بھی طلباء یونینوں پر بدستور پابندی عائد رہی، اور جو آج بھی ہے، اس دوران پیپلز پارٹی 2008 میں تیسری مرتبہ برسر اقتدار آئی تو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے طلباء یونینوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے ہی اعلان پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد سینیٹ کے اس وقت کے چیئرمیں میاں رضا ربانی نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے طلباء یونینوں پر پابندی کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا، اس معاملے کا جائزہ لینے لئے اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کردیا تھا۔ رضا ربانی کے بیان کو بیشتر قانون سازوں نے نہ صرف سراہا بلکہ اس کی تائید بھی کی تھی اور کہا تھا کہ طلباء یونینوں کی بحالی سے ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ ہوگا، اور یہ بھی کہا تھاکہ طلباء یونینوں پر عائد پابندی سے سیاسی حوالے جو خلا پیدا ہواہے، اس سے جمہوری روایات اور جمہوری کلچر متاثر ہوتا رہا ہے،

دوسری طرف بعض حلقوں میں تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کی بحالی کی کوششوں کی مخالفت بھی کی گئی، طلباء یونینز کی بحالی کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ طالباء یونینوں کی بحالی سے تعلیمی اداروں میں تصادم، محاز آرائی اور تشدد کا کلچر پروان چڑھے گا۔ تاہم جن لوگوں کے سامنے ماضی کی طلبا یونینز کا کلچر ہے، وہ اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ طلباء یونینز مستقبل کے سیاسی رہنمائوں کی نرسری ہوتی ہے۔ اس زمانے میں تعلیمی اداروں میں اتنا تشدد نہیں تھا، جتنا پر تشدد ماحول اس وقت تعلیمی اداروں میں ہے، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ماضی میں طلباء یونینز نظریاتی بنیادوں پر قائم تھیں، اب سیاسی جماعتوں کی زیلی تنظیموں، مذہبی فرقہ واریت اور لسانی اور نسلی بنیادوں پر قائم کی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے گذشتہ دو عشروں کے دوران ملکی سیاست میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی قابل زکر سیاسی رہنما سامنے نہیں آیا ہے۔

ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے طلباء یونین کی بحالی کےلئے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کرائی ہے۔ اگر سندھ حکومت اس میں سنجیدہ ہے اور وہ دل سے طلباء یونین کی بحالی چاہتی ہے، تو اس سے پیپلز پارٹی کو بیحد سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے، سیا سی طور پر اس کا جمہوری چہرہ مزید روشن ہوسکتا ہے، پیپلز پارٹی طلباء یونینوں کی بحالی اور ان کے انتخابات کرانے کی نوید دے کر بلاول بھٹو زرداری کو ملک بھر میں نوجوانوں کے واحد قائد کے طور پر پیش کرسکتی ہے، طلباء یونینز کی بحالی سے پیپلز پارٹی کو ملک کے بیشتر نوجوانوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ کیونکہ طلباء یونینز کی بحالی طلباء کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔ یہاں ماضی میں سرگرم طلباء تنظیموں اور ان پر پابندی عائد کئے جانے والے عوامل کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں