پاکستان میں ٹریڈ یونین کا خاتمہ (حصہ دوئم)

0
37

تحریر: مقبول خان

 1972مزدوروں کی تاریخی جدو جہد

 سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بر سر اقتدار آئے ،اور انہوں نے مزدور قوانین بھی متعارف کرائے، جن میں صنعتی تعلقات کا آرڈیننس قابل زکر ہے، لیکن صنعتکاروں اور مل مالکان کا مزدور دشمن رویہ جنرل ایوب کے دور حکومت کی طرح جاری رہا، جبکہ مزدور بھی اپنی جدوجہد کے حوالے سے پر اعتماد تھے، انہوں نے اپنے حقوق کے لئے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں مزدوروں نے اپنے اپنے اداروں میں تحریک شروع کا آغاز کر دیا، لہذا 1972میں جنوری تا جون تک سائٹ، کورنگی اور لانڈھی کے کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں میں مظاہرے، جلسے، جلوس اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ مزدوروں کی اس اجتماعی تحریک کی قیادت متحدہ مزدور فیڈریشن کے تحت ریاض احمد اور عزیز الحسن کر رہے تھے۔ اس تحریک مر کز سائٹ کا صنعتی علاقہ تھا، مزدوروں کی اس تاریخی جدوجہد کو دبانے کے لئے صنعتکاروں نے اس وقت کی بیوروکریسی (نوکر شاہی) کے ساتھ مل کر طاقت کا استعمال کیا، اور مزدوروں پر پولیس کے ذریعہ محنت کشون کے اجتماعات پر لاٹھی چارج اور فائنگ کرائی، جس کے نتیجے میں، ایک سو سے زائد محنت کش جاں بحق اور زخمی ہوئے، مزدوروں پر اس تشدد کے نتیجے کراچی کے مختلف علاقوں سمیت پاکستان بھر کے محنت کشوں میں بے چینی پھیل گئی، اور احتجاج کا سلسلہ ملک گیر سطح تک پھیل گیا، مزدوروں نے احتجاج اور مظاہرے شروع کر دیئے۔ اس تحریک کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد دائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان وزارت سے مستعفی ہوگئے اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے رفقاء کے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورتحال پر قابو پالیا۔

اس وقت پاکستان میں محنت کشوں کی جو تنظیمیں قائم ہیں، ان میں پاکستان ورکرافیڈریشن، پاکستان ٹرانسپورٹ اینڈ جنرل ورکرز فیڈریشن، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، آل پاکستان ٹریڈ یونین کانگریس، پاکستان نیشنل فیڈریشن آف ٹریڈ یونین، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین وغیرہ قابل زکر ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ادروں میں چھوٹی بڑی یونین رجسٹرڈ ہیں، لیکن وہ بھی برائے نام ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مزدوروں کی ان بڑی بڑی تنظیموں کا مزدور مفاد میں کردار برائے نام ہے، یہ تنظیمیں ماضی کی ٹریڈ یونین تنظیموں کی طرح فعال نہیں ہیں، ان کا موقعہ کی مناسبت سے جلسے اور جلوس کا انعقاد ہی رہ گیا ہے۔ اب سے ایک ڈیڑھ عشرے قبل تک کراچی میں پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم، شپ یارڈ، کے پی ٹی، کے ای ایس سی، پی آئی اے، واٹر بورڈ، کے ڈی اے، کے ایم سی، جنرل ٹائر، حبیب بینک، یو بی ایل، ایم سی بی بینک اور دیگر اداروں میں یونینز سرگرم اور فعال تھیں، اور سی بی اے یونین کے کے لئے باقائدہ الیکشن اور ریفرنڈم ہوا کرتے تھے، جس کی بازگشت نہ صرف ان کے اداروں تک محدود رہا کرتی تھی بلکہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں بھی ان کے نعرے گونجا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ سب ایک خواب بن چکا ہے، اب ان اداروں میں نہ تو الیکشن ہوتے ہیں اور نہ ہی ریفرنڈم، کیونکہ ان ادروں کے بیشتر ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعہ فارغ کیا جا چکا ہے، نئے لوگ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر بھرتی کئے جارہے ہیں، جنہیں یونین کی رکنیت لینے کا حق بھی حاصل نہیں ہے، کے ای ایس سی جو اب کے الیکٹرک کہلاتی ہے، ماضی میں اس ادرے کی مختلف یونینز کے ممبران کی تعداد گیارہ ہزار سے زائد تھی، اب چھ یا سات سو ہے اور یونین بھی غیر فعال ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ صرف کے الیکٹرک یونین کا حال نہیں ہے، پاکستان کی بیشتر اداروں میں ٹریڈ یونینز غیر فعال ہیں اور برائے نام وجود رکھتی ہیں، دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب پاکستان میں ٹریڈ یونینز کی بحالی اور ان کے فعال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ اب بیشتر اداروں میں مستقل ملازمین کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، ان کی جگہ پر ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ پر ملازمین کو رکھا جارہا ہے، جنہیں یونین کا ممبر بننے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین دم توڑ رہی ہے۔

 یہ اور بات ہے کہ ٹریڈ یونین کے زوال میں حکومت کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ پاکستان میں لیبر قوانین مروج ہیں، لیبرعدالتیں قائم ہے، لیبر ڈائریکٹوریٹ سرگرم ہے، قومی صنعتی تعلقات کا کمیشن بھی فرائض انجام دے رہا ہے، لیکن یونین کی رکنیت حاصل کرنے والے محنت کشوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہورہی ہے۔ کیونکہ ملک کے بیشتر اداروں میں کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی سسٹم متعارف ہوچکا ہے۔ ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہو چکا ہے، محنت کش طبقہ استحصال اور کسمپرسی کا شکار ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں