تحریر: فرزانہ صدیق
پاکستان کی صحافت اس وقت عجیب ہی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ جس پر ابھی فی الحال نہیں بولا جا سکتا۔ ہاں البتہ ان حقائق میں اپنے ہی میڈیا چینلز کے کولیگز کے مسائل ان کی ذاتی زندگیاں اور پروفیشنل لائف شامل نہیں ہیں۔
اللہ کا شکر ہے یہ بھی کرم ہے کہ مجھے کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر کچھ عرصے کے لئے صحافت سے بریک مل گیا تو اس لیے دماغ اب زیرو میٹر کام کرتا ہے لیکن ایک لاوا ہے جو ابلُ رہا ہے۔ عمر بچ ہی کتنی گئی ہے اس لئے اگر یہ لاوا پھٹا تو تباہی کتنی مچے گی میں اب اس خوف سے آزاد ہوں۔
خیر بات کرتے ہیں پاکستان کی صحافت کی مجھ سمیت شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے بہتی گنگا سے ہاتھ نا دھوئے ہوں۔ ہاں البتہ ہر ایک کا طریقہ واردات مختلف ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی آئینہ دیکھنے کو تیار نہیں۔ کوئی کسی کی قسم نہیں اٹھا سکتا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو میری صحافت کی بے باکی اور سچائی کی قسمیں تک اٹھاتے ہیں۔ شاید وہ میرے اسی روپ سے واقف ہے جو انہوں نے دیکھا ہو۔ شائد وہ میرا طریقہ واردات اس کی سوچ سے بھی باہر ہو۔ ہر انسان کی ایک قیمت ہے اور ہر کوئی اپنے من پسند بھاو پر ہی بکتا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے پیسوں سے خریدا نا جا سکے۔ طاقت سے جھکایا نا جاسکے۔ جیلوں میں موجود لیڈر بھی تبھی جھک جاتے ہیں جب انہیں ان کے من پسند اقتدار کا لالی پاپ دے دیا جائے۔ کوئی صرف تب تک نہیں بکتا جب تک من پسند بولی کو نا پہنچ جائے کوئی تب تک نہیں جھکتا جب تک من پسند تخت کی نوید نا سن، سب بکائو مال ہے۔
اسلام آباد سے آج کل پبلک نیوز کے ایک سینئر رپورٹر ناصر بٹ کے استعفے نے بہت آخیر مچائی ہوئی ہے۔ مجھے بھی مختلف کالز مسیجز موصول ہوئے کسی نے اس کے حق میں لکھنے کو بولا تو کسی نے اتنے لمبے اسکرین شارٹس اور آڈیو ریکارڈنگز بھیجیں۔ عقل کا استعمال کیا اور سوچا کہ میں کسی کا بھی آلہ کار نہیں بن سکتی۔
ہاں ناصر بٹ چونکہ بہت اچھا کرائم رپورٹر رہا ہے، اس لیے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رہتا تھا، ناصر ان لوگوں میں سے ضرور ہے، جس کے منہ سے جب بھی کبھی بھی کسی کا بھی زکر سنا تو احترام چھلکتا نظر آیا، جس کو کبھی کال کی تو خوش رہو بہن ان الفاظ کے ساتھ اس نے خدا حافظ بولا۔
ایک بات طے ہے جو مرد و عورت سے یا اس کے متعلق گفتگو انتہائی احترام کے ساتھ کرے وہ گھٹیا نہیں ہوسکتا اور فیلڈ رپورٹر ہونے کے ناطے میری تو کبھی اپنے بیوروچیف سے جلدی ملاقات نا ہو پائی تو کسی اور چینل کے بیورو چیف سے کیا ملاقات کرنی اور اس پر کی جانے والی الزام تراشیوں کا جواز کیا لکھنا۔ اگر تو یہ سمجھا جائے کہ کسی کے خلاف بغیر تحقیق کے لکھ دوں گی اور پھر ہی مجھے سچی اور اچھی صحافی مانا جائے گا تو ایسی اچھائی سے میری توبہ۔
اور جو صحافی اس تمام تر پروپگنڈے کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ جو ان کو فون کرکے خبریں پہنچا رہے ہوتے ہیں وہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو بولو یار وہ بیوقوف ہے وہ فوری لکھ دے گا۔
خیر بات یہ ہے کہ مجھے اب کسی نے بھی کال یا مسیج کرکے کسی بھی چینل یا رپورٹر کی خبر اس اُمید پر پہنچائی کہ میں فیس بک پر چھاپ کے واہ واہ کروا لوں گی نہیں بھائی میں آپ کا نام بات سمیت لکھ دوں گی۔ اور میں لکھ دوں گی، جو مجھے جانتے ہیں، وہ میری جرات کو بھی جانتے ہیں۔ اس لیے مجھے ایسے پروپگنڈوں سے دور رکھیے۔ آپ کا شکریہ
اور ہاں جس دن میں نے صحافیوں کی زندگیوں پر سچ لکھنا شروع کیا تو وعدہ ہے آغاز میں اپنی ذات کی سچائی سے کروں گی کیونکہ دوسروں کی شکل واضح دکھانے سے پہلے اپنی شکل کی پہچان بھی ضروری ہے۔ وگرنہ اپنی واہ واہ کروانے کی خاطر مختلف سوکالڈ صحافیوں کے سوکالڈ مسیجز اور کالز پر کچھ بھی چھاپا جا سکتا ہے۔ سچا نظر آنے سے سچا بننا ضروری ہے اور یہ ہمت ہر ایک میں نہیں ہوتی صحافت کی دنیا میں جلد ملاقات ہو گی۔
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے اور ہر ایک کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔