تحریر: رابعہ خان
تعلیمی ادارے ایک ایسی پاک و مقدس جگہ ہوا کرتے ہیں جہاں بچے اپنے والدین کے بعد اپنے روحانی والدین یعنی اساتذہ اکرام سے تعلیم و تربیت لیتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی تبدیلی کی کلید استاد محترم سے ہی ہوا کرتی ہے۔ جیسے گھر میں والدین کا ادب و احترام قائم ہوتا ہے اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی استاد کا ایک مقدس مقام ہے اور پیغمبرانہ پیشہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے و تعلیمی درسگاہیں تعلیمی حصول کے لیے ہوتی ہے۔ جہاں جس مقام پر طلبہ تعلیم حاصل کر کے دنیا میں اعلیٰ مقام تک پہنچ رہے ہیں۔ ایک بہترین معاشرے کے لئے تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔
انسانوں کے اندر شعوری طور پر متاثر کرنے کا کام استاد ہی سر انجام دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ استاد کو دنیا میں ایک الگ اعلیٰ و ممتاز اور محترم فرد تصور کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اسلامی معاشرے میں استاد کو عزت و احترام بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر آج کے دور میں ایک استاد یہ عزت و احترام کھوتا نظر آتا ہے۔ استاد اپنی تذلیل کی اصل وجہ بھی وہ خود ہیں۔ معاشرتی حالات و واقعات نے استاد کو اپنی پہچان سے بھی بیگانہ کر دیا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل اسلام آباد کی کیمسٹ یونیورسٹی جس کا شمار مشہور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے یہاں بہن بھائی کے پاک و تقدس رشتےکو پامال کرتے ہوئے ایک اسٹوری لکھنے کے حوالے سے واقع پیش آیا تھا جس میں یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب انگلش کے پرچے پر بہن بھائی کے غیر اخلاقی تعلقات پر مضمون لکھتے ہوئے نیچے سوال ملاحظہ کرتے ہیں کہ کیا بہن بھائی کے درمیان یہ تعلقات درست ہیں اگر ہیں تو اس کی وضاحت دیجئے؟ بلکل ایسا ہی ایک سوال اعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پرچے پر پوچھا گیا تھا کہ بہن کے فگر پر نوٹ لکھیں اور اگر اس شعبہ سربراہ سے ایک ٹاک شو میں میڈیا پرسن کے سوال پر کہتے ہیں کہ اس میں غلط ہی کیا ہے یعنی اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ماڈرن کے نام پر ہم کس جانب جا رہے ہیں۔
آخر ہو کیا رہا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں آئے روز ناقابل یقین واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اور ذمیدار کون؟ میں؟ آپ؟ والدین؟ استاد؟ یا معاشرا ؟ ذمیدار ہم سب ہیں ہم اپنے دماغوں پر یہ حاوی کر چکے ہیں کہ جب تک ہم مغربی ممالک کی رسومات نہیں اپناتے تب تک ہم کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہونگے مگر یہ کیسی رسومات ہیں جنہیں ہم اپنے اندر راغب کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ حلال و حرام یعنی محرم و نا محرم میں کوئی فرق نہیں چھوڑا۔ کچھ ہی روز قبل کا واقع خبروں پر گردش کر رہا ہے۔ بہالپور کی مشہور اسلامیہ یونیورسٹی کا ہی ایک کیس سامنے آرہا ہے۔ جس میں یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی گارڈز نشہ آور اور جنسی ادویات اپنی پرائیویٹ گاڑیوں میں لے جارہے تھے کہ سامنے سے سی آئی اے ہاتھ لگ گئے۔ طالبات کو آئس، شراب اور جنسی ادویات دی جاتی تھی، ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کو چیف سکیورٹی گارڈز بیماری کے بہانے ایمبولینس کے ذریعے میجر اعجاز شاہ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچاتے اور وہ ان کا جنسی استحصال کرتے یہی نہیں بلکہ میجر اعجاز شاہ لڑکیاں آگے بھی سپلائے کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق چیف سکیورٹی گارڈز سے برآمد شدہ موبائل فونز سے 5 سو سیکس وڈیوز اور تصاویر موصول ہوئیں اور 70 سے زائد ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ سے لڑکیوں کی وڈیوز ملی۔
چیف سکیورٹی گارڈز کی دوران تفتیش کے معلوم ہوا کے بہالپور یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک گینگ بنا ہوا تھا جو لڑکیوں کی آگے سپلائےی بھی کیا کرتے۔ پاسنگ مارکس دینے کے غرض سے ان لڑکیوں کے ساتھ اپنی حوس مٹانے کا مطالبہ کیا جاتا اور لڑکیوں کی رضامندی پر ہی وہ ان کی ننگی’ سیکس ویڈیوز اور تصاویر بناتے اور پھر بلیک میل کرتے۔ یہاں سب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ ان سرکاری افسران کے جنسی خواہشات کے مطالبات لڑکیاں مان لیا کرتی تھی کسی غیر نامحرم کے سامنے خود کو برہنہ کرتی رہیں وہ بھی صرف کچھ نمبروں کی خاطر کیا کوئی ایک بھی ایسی طالبہ موجود نہیں تھی جو ڈگری کے بجائے اپنی عزت کو اہمیت دیتی؟ کیا مستقبل میں وہ اس ڈگری سے انصاف کر پائینگی کیا یہ یونیورسٹی کی ڈگری عزت سے زیادہ اہم تھی کہ اس کے بنا آپ جی نہیں سکتی تھیں؟ اسے ہی نہ جانے کتنے ادارے ہیں اس اسلامی ریاست میں جہاں عورت ذات کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اور یہاں قصور وار صرف مرد نہیں عورت بھی برابر کی شریک ہے کیونکہ وہ اپنے چند دنیاوی فوائد کی خاطر اپنی تذلیل پر رضامند ہو جاتی ہے۔
آج کے معاشرے میں کسی ایک کو اس سب کا قصوروار ٹھہرایا جانا ناانصافی ہی کہلائے گی۔
بہاولپور کے جامعات میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سے اور کئیں اسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو آئے روز خبروں کی شہ سرخیوں پر نظر آتے ہیں ان سب واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعد از افراد کی یہ رائے رہی ہے کہ تمام جامعاتی اداروں میں لڑکیوں و لڑکوں کی یکساں تعلیم کو ختم کیا جائے۔ لیکن ایسی نوبت ہی آخر کیوں پیش آرہی ہے؟ کیا اس سے آئے روز کے واقعات تھم جائیں گے؟ کیونکہ ایسا صرف تعلیمی اداروں میں ہی تو نہیں ہو رہا ایک لڑکی نہ گھر، نہ تعلیمی اداروں میں، نہ ملازمتیں اداروں میں حتیٰ کہ عورت ذات تو قبر میں بھی محفوظ نہیں تو مسائل کا حل محض تعلیمی اداروں سے یکساں طور پر تعلیم ختم کر دینے سے نہیں بلکہ معاشرے میں اپنا مصبت کردار ادا کرنا ہوگا اور تب ہی معاشرہ اسلامی تعلیمات کے تابع چل پائے گا۔