تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
کسی بھی نظام سے مستفید ہونے والے کم ہوتے جائیں تو وہ نظام سکڑ جاتا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ کتاب ‘قومیں کیوں فیل ہوتی ہیں’ کا مرکزی خیال یہی ہے کہ ریاستی نظام اگر سب کو فائدہ نہیں دے رہا تو ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ کتاب میں دو الفاظ ” ایکزٹریکٹیو” اور “ان کلوسیو” کا ذکر مصنف بار بار کرتے ہیں۔ مطلب عوام کو فائدہ دینے والا نظام، عوام کو ساتھ لے کے چلنے والا نظام۔ امیر کا امیر ہوتے جانا اور غریب کا غریب تر، یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا لیپٹلزم کے ذریعے استحصالی نظام کی پرورش کر رہی ہیں۔
کسی بھی ریاست میں انفارمیشن کی آزادی نہ صرف ریاست کو بلکہ عوام کو چیزوں کو پرکھنے کا صیح رُخ عطا کرتی ہے۔ اگر کوئی سیاسی فلسفہ اپنی ہی ریاست کو جھوٹ اور پراپیگنڈا سے لپٹی ہوئی انفارمیشن کا ملغوبہ دے گا تو عوام کا چیزوں کو پرکھنے کا انداز خطرناک ہو جائے گا۔ یہ کھانے میں زہر ملانے کے مترادف ہے۔
عوام کو سچ بتا کر اُن کو چیزوں اور نظام کو پرکھنے کا صیح راستہ دکھانا ہوگا۔ انفارمیشن کو جھوٹ سے مکمل علیحدہ کرنا تو ممکن نہیں لیکن کافی حد تک ممکن ہے۔
ہر نظام کی سرپرستی، چاہے وہ بینکنگ سسٹم ہو، ایف بی آر، سکولنگ سسٹم، سوتر منڈی، بازار، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، ٹرانسپورٹ، ایک مافیا کرتا ہے۔ اور مافیا کی جنم کنڈلی حکومتی ایوانوں تک جاتی ہے۔ استحصالی نظام بغیر سرپرستی کے پنپ ہی نہیں سکتا-خ۔ نظام کی تبدیلی ایک سائنس ہے۔ یہ فوری عملداری والا کام نہیں۔ خاص طور پر وہ نظام جو سیٹھ سے پیسے نکلوانے کے درپے ہو۔
ہمارے معاشرتی نظام میں حکومت مارکیٹ اکانومی میں حصے دار ہے اور یہیں سے معیشیت خراب ہوتی ہے. حکومتی اہلکار مارکیٹ اکانومی سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، جس سے مارکیٹ اکانومی کو دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ جتنی بڑی مارکیٹ اکانومی ہے اتنی ہی طاقتور حکومتی سر پرستی ہے۔
عوام کو سچ بتائیں، ان کو معیشیت میں حصہ دار بنائیں، مافیاز اور طاقتور حکومتی اہلکاروں کے گٹھ جوڑ کو توڑ دیں۔ سچی انفارمیشن سب کچھ ٹھیک کر سکتی ہے۔ پراپیگنڈا صرف شر کی ترویج کرتا ہے۔