ساکھ

0
48

تحریر: سلیم اللہ صدیقی

پاکستان میں میریٹ اور پرل کانٹینینٹل ہوٹل چین کے مالک اور میمن برادری سے تعلق رکھنے والے صدرالدین ہاشوانی اپنی کتاب ‘سچ کا سفر’ (ٹُرتھ آلویز پریویلز) میں لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بھائی کے ساتھ مل کر کپاس اور گندم کی تجارت کیا کرتے تھے، کاروباری سودوں کیلئیے چھوٹی عمر میں ہی اکثر کراچی سے کوئٹہ کے درمیان رات کا سفر کرتے، کئی بار سفر کیلئیے پورے اخراجات بھی میسر نہ ہوتے تو آتے جاتے ٹرکوں سے لفٹ لے لیتے اور رات رات بھر ٹرک کے پیچھے سامان کے اوپر سفر کر کے کوئٹہ پہنچا کرتے۔ کاروباری ساکھ کچھ بہتر ہوئی تو انہوں نے آہستہ آہستہ حکومت کے ایکسپورٹ ٹینڈرز میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ یونہی ایک بار ساؤتھ امریکہ کے کسی ملک کو گندم درکار تھی، دیگر ایکسپورٹرز کے مقابلے میں ہاشوانی برادرز کی قیمت مناسب تھی اور یوں ہاشوانی برادرز کو کانٹریکٹ مل گیا۔

کانٹریکٹ سائن ہو گیا تو انہی دنوں کسی وجہ سے دنیا میں گندم کا بحران شروع ہو گیا اور گندم کی قیمتیں آسمان سے جا لگیں۔ ساؤتھ امریکہ کے اس ملک کی حکومت کو پریشانی لاحق ہوئی، انہوں نے خط لکھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں گندم کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہمارے سائن ہو چکے معاہدے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

صدر الدین ہاشوانی بتاتے ہیں کہ ہم نے انہیں جواب دیا کہ دنیا میں گندم کی قیمتیں بڑھنے کا ہمارے معاہدے ہر کوئی اثر نہیں ہوگا اور ہم آپ کو گندم اسی قیمت ہر فراہم کریں گے جس پر اپ سے معاہدہ ہوا ہے۔ ہاشوانی کہتے ہیں کہ ہمیں اس عمل سے خاصے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اپنا قول نبھایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے اس طرز عمل سے ساؤتھ امریکن ملک کی حکومت اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے ہمیں بے شمار کانٹریکٹ دے دئیے اور ہم ایک طرح سے ان کے مستقل اور قابلِ اعتماد پارٹنر بن گئے۔ یہیں سے ہاشوانی خاندان کی ترقی کا آغاز ہوا اور ہاشو گروپ کی بنیاد پڑی، جلد ہی انہوں نے کراچی میں زمین کا ایک قطعہ خرید کر پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی بنیاد رکھی، کچھ ہی عرصے میں پرل کانٹینینٹل کراچی اپنی بےمثال خدمات کی وجہ سے امراء اور بارسوخ افراد کا پسندیدہ ہوٹل بن گیا۔ اس وقت پاکستان کا واحد ہوٹل تھا جو ایک دہائی سے زائد عرصہ تک دنیا کے ممتاز ترین ہوٹلز میں شمار ہوا کرتا تھا جہاں نیلسن منڈیلا سے لے کر ملکہ الزبتھ تک نے قیام کیا۔ کئی ائیرلائیز کا سٹاف پرل کانٹینینٹل کراچی میں ہی قیام کیا کرتا۔ ہاشو گروپ کی بہترین کاروباری ساکھ اور پرل کانٹینینٹل کراچی کی بے مثال کامیابی کے بعد پی سی لاہور، راولپنڈی، بھوربن، پشاور، گوادر، مظفرآباد اور مالم جبہ اور دیگر کئی مقامات پر تعمیر ہوتے گئے۔ اور یوں ٹرک کے پیچھے لفٹ لے کر سفر کرنے والے صدرالدین ہاشوانی اپنی بہتر کاروباری ساکھ، بروقت فیصلوں اور ترقیء مسلسل کے عزم کے تحت پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری کےسب سے با اثر فرد بن گئے۔

آپ صدر الدین ہاشوانی کی کاروباری کامیابی کو اگر ایک لفظ میں سمونا چاہیں تو وہ ایک لفظ ہوگا ‘ساکھ’۔ ۔ جسے انگریزی میں کریڈٹ، کنڈکٹ یا بزنس ریپیوٹیشن کہتے ہیں۔ کسی بھی کاروبار، فرد، ادارے، حکومت یا ملک کی ساکھ ہی ہوتی ہے جو اسے زمین سے آسمان تک پہنچا دیتی ہے اور یہ ساکھ ہی ہوتی ہے جو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ آپ جاپان کی مثال دیکھ لیں، ایک عرصہ تک پاکستان کے گھروں میں باہر سے آنے والے پاکستانیوں سے جاپانی الیکٹرونکس جیسے استری، ٹی وی یا وی سی آر لانے کی فرمایش کی جاتی تھی۔ جاپانی مصنوعات کی ساکھ ہی نے ایک پاکستان سے آدھے رقبے والے ملک کا جی ڈی پی 4.7 ٹریلئین ڈالرز کر دیا جبکہ وطن عزیز کا کاغذوں میں جی ڈی پی 338 بلئین ڈالرز ہے، یعنی رقبے میں دگنا ہونے کے باوجود جاپان سے ہمارا جی ڈی پی 14گنا کم ہے۔

بات یہ ہے کہ اگر آپ کینو ایکسپورٹ کا آرڈر لے کر شلجم سپلائی کردیں گے اور اڑھائی میٹر کی بیڈشیٹس کا آرڈر لے کر دو میٹر کی بیڈشیٹس سپلائی کریں گے یا دس سال امریکہ کے ساتھ مل کر بن لادن کو ڈھونڈنے کے باوجود بن لادن کو اگر امریکہ آ کر آپ کی بغل سے پکڑ لے گا تو آپ صرف اپنی نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئیے ملک کی ساکھ داؤ پر لگا دیں گے، پھر دنیا میں آپ پر۔۔ ۔ کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں