تحریر: ریحان خان چشتی
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے نوجوان مصطفی عامر کا کیس پولیس کے گلے کی ہڈی بن گیا، پولیس کی ناقص تفیش کے باعث جہاں پورا کیس خراب ہوا، وہی پولیس کی تفتیش پر کئی سوالات نے بھی جنم لے لیا۔
پولیس کی حراست میں موجود ملزم آرمغان کے والد کامران قریشی کے بیان کے بعد کیس نے نیا رخ اختیار کر لیا، پولیس حکام کے مطابق عدالت سے مصطفی کی قبر کشائی کے احکامات کے بعد کیس حل کرنے میں مدد ملے گی۔ پولیس حکام سمجھتے ہیں کہ مصطفی کے قتل کے پیچھے اس کا دوست آرمغان ہی ہے، تاہم ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر پولیس کے ہاتھ اب تک قانون سے بندھے ہوئے ہیں، مصطفی کیس سے جڑے سوالات، محرکات اور پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوست نے دوست کی جان لی یا معاملہ کچھ اور ہے؟ آرمغان، شیراز اور مصطفی جب پکے دوست تھے تو بے وفائی کس نے اور کیوں کی؟؟؟ مصطفی کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ مارشا اور انجیلہ نامی لڑکیاں کون ہیں اور مارشا 12 جنوری کو بیرون ملک فرار کیوں ہوئی یہ لڑکی کون تھی اور اس کا مصطفی سے کیا تعلق تھا۔ لڑکی اچانک بیرون ملک فرار کیوں ہوگئی۔ پولیس نے پہلے دن سے اغوا کیس پر توجہ کیوں نہیں دی اور اس ہائی پروفائل کیس کی ناقص تفتیش کیوں کی گئی؟؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ملنا ابھی باقی ہیں۔
قالین سے حاصل کیے گئے خون کے نمونے کس کے ہیں، آرمغان کے گھر موجود بھاری مقدار میں اسلحہ، لیپ ٹاپ، سی سی ٹی وی کیمرے کس کام آتے تھے۔ اس کی بھی جانچ ابھی باقی ہے۔
ڈیفنس کراچی کا رہائشی مصطفی عامر 6 جنوری کی شام ساڑھے 7 بجے سیاہ رنگ کی مارک ایکس گاڑی نمبر اے کیو پی- 165 میں بیٹھ کر گھر سے روانہ ہوا۔ تاہم جب دیر تک گھر نہ لوٹا تو اہل خانہ نے تلاش شروع کر دی۔ بچے کے نہ ملنے پر اہل خانہ مقدمہ درج کرانے درخشاں تھانہ گئے تو پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ 24 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے پر مصطفی کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں تھانہ درخشاں پر مقدمہ الزام نمبر 12/25 درج کرکے کیس کی تفتیش ساوتھ انویسٹیگیشن پولیس کو سونپ دی گئی۔ اس دوران اہل خانہ مصطفی کی تلاش میں در بدر پھرتے رہے اور متعلقہ حکام سے رابطے کرتے رہے، اہل خانہ کے مطابق ضلع جنوبی کے تفتیشی ایس ایس پی نے ان کے ساتھ بلکل تعاون نہیں کیا الٹا وہ ان کے بیٹے کی کردار کشی کرتے رہے۔ کیس کی تفتیش جاری تھی اسی دوران 26 جنوری کو مغوی مصطفی کی والدہ وجیہہ عامر کو بیرون ملک کے نمبر سے تاوان کی کال موصول ہو گئی، جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی اور یوں مصطفی اغوا کیس کی تفتیش اے وی سی سی سی آئی اے پولیس کو منتقل ہو گئی۔ اے وی سی سی اور سی پی ایل سی نے اس کیس کی از سر نو تفتیش کا آغاز کردیا۔ دوران تفتیش پولیس نے مصطفی کے واٹس ایپ کے وائس نوٹ حاصل کرلیے جس میں مصطفی اور اس کے دوست رافع کے درمیان طویل گفتگو سامنے آئی۔ مصطفی نے رافع کو بتایا کہ ارمغان نے مجھے اپنے گھر بلایا ہے میں آرمغان کے گھر جا رہا ہے اور تم بھی وہیں آجائو۔
یوں پولیس کو ملنے والے اس وائس نوٹ سے اے وی وی سی پولیس حکام کو پتہ چلا کہ مصطفی 6 جنوری کی رات آرمغان سے ملنے گیا تھا۔ تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اے وی سی سی اور سی پی ایل سی نے 8 فروری کو آرمغان کے گھر پر چھاپہ مارا جہاں پولیس اور ملزم کے درمیان چار گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا، اس دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی بھی ہوگئے۔ تاہم پولیس ملزم آرمغان کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہی۔
کیس کا مرکزی ملزم آرمغان گرفتاری کے بعد 8 فروری کی شام سے 10 فروری کی صبح تک اے وی سی سی پولیس کی تحویل میں رہا۔ 40 گھنٹے تک پولیس تحویل میں رہنے کے باوجود اے وی سی سی پولیس مصطفی اغوا کیس سے متعلق مرکزی ملزم آرمغان سے سچ اگلوانے میں مکمل ناکام رہی اور کمزور شواہد کی بنیار پر چالان بناکر عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کر دیا گیا۔ عدالت نے کمزور چالان اور کم ثبوت کی بنیاد پر پولیس کو ملزم ارمغان کا جسمانی ریمانڈ دینے کے بجائے آرمغان کو جیل بھیج دیا اور یوں مصطفی اغوا قتل کیس کا اہم مرکزی ملزم بغیر تفتیش کے ہی پولیس کے ہاتھوں سے نکل کر جیل پہنچ گیا۔
درخشاں تھانے میں درج مصطفی اغوا کے مقدمے کہ محض 5 روز بعد ہی 11 جنوری کے دن حب پولیس کو پہاڑی علاقے سے ایک لاوارث جلی ہوئی کار اور ڈگی سے انسانی لاش ملی۔ پولیس نے دھوراجی تھانہ حب میں 11 جنوری کو ہی سرکاری مدعیت میں مقمہ نمبر 1/2025 درج کرکے لاش کراچی روانہ کرنے کے لیے ایدھی حکام کے حوالے کر دی، جنھوں نے 16 جنوری کو لاش لاوارث سمجھتے ہوئے اسے دفنا دیا۔ ایدھی حکام کے مطابق لاش مکمل جل چکی تھی جبکہ لاش کے ہاتھ پاؤں بازو بھی موجود نہیں تھے۔ ایدھی حکام نے حب سے ملنے والی لاش اور گاڑی کی اطلاع کراچی پولیس کو بھی دی تھی، تاہم پولیس کی توجہ اس طرف نہ جا سکی کہ حب سے ملنے والی لاش اور گاڑی کراچی سے اغوا ہونے والے مصطفی کی بھی ہو سکتی ہے، پولیس اسی سمت میں تفتیش میں مصروف رہی جس سمت میں اس نے مصطفی اغوا کیس پر کام شروع کیا تھا۔
ادھر اے وی سی سی پولیس کی جانب سے کیس کی تفتیش جاری رہی اور پولیس کو اہم کامیابی اس وقت حاصل ہوئی، جب پولیس نے 12 فروری کو آرمغان کے دوست شیراز کو گرفتار کیا، جس نے مصطفی اغوا کیس سے متعلق سنسنی خیز انکشافات پولیس کے سامنے اگل دئیے۔ ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کہ مطابق مصطفیٰ کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم جسے گرفتار کیا گیا ہے وہ ان کا دوست آرمغان ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے ساتھی شیراز کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگائی تھی۔
پولیس کے مطابق گرفتار ملزم آرمغان کے گھر کے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل فون ملا، جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔ ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گرا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ کراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور مبینہ قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم آرمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔
ادھر مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر کا کہنا ہے کہ انھیں ابتدا سے ہی ملزم آرمغان پر شک تھا 6جنوری سے 22 جنوری تک کبھی کراچی کے علاقے درخشاں تھانے تو کبھی گذری تھانے کے چکر لگاتی رہی کہ مصطفیٰ کے موبائل فون کا کال ڈیٹا نکلوائیں، اس کے پاس ایک انٹرنیٹ ڈیوائس اور ایک نوکیا فون ہے لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور ان کے بچے کی کردار کشی کرتی رہی۔پولیس انھیں کہتی تھی کہ ‘مصطفیٰ خود ہی کہیں چلا گیا ہے کیونکہ اس کی گاڑی بھی موجود نہیں ہے اور اس کا فون بھی نان پی ٹی اے ہے۔ وہ ایسی باتیں کرکے مجھے چپ کرواتی رہی۔
دوسری طرف مصطفی عامر قتل کیس میں ملوث ملزم آرمغان کے والد نے نیا انکشاف کر کہ کیس کا رُخ بدلنے کی کوشش کی ہے وہ کہتے ہیں۔ مصطفی عامر کے ساتھ زیادتی ہوئی، میرا بیٹا قتل میں ملوث نہیں ہے، بلال ٹینشن نامی شخص اس قتل میں ملوث ہے، اس کو پکڑ لیں سارا معاملہ سامنے آجائیگا۔
مصطفی عامر اغوا اور مبینہ قتل کیس میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے، جن کے جوابات ملنا ابھی باقی ہیں۔ 6 جنوری سے 26 جنوری تک سائوتھ انوسیٹگیشن پولیس کی کیس میں عدم دلچسپی رکھنا، 8 فروری سے 10 فروری تک مرکزی ملزم کی گرفتاری کہ باوجود اے وی سی سی پولیس کا ملزم سے مغوی مصطفی کی معلومات حاصل کرنے میں ناکام ہونا اور پہلے ہی دن ہائی پروفائی کیس میں مرکزی ملزم کو عدالت سے پولیس ریمانڈ پر دئیے جانے کے بجائے جیل کسڈی کرنا جیسے بہت سے سوالات کے جواب ملنا بہت ضروری ہیں۔
ادھر آرمغان کے والد جو خود کو امریکی شہری کہتےہیں، انھوں نے بھی پولیس کے خلاف بیان دے کر اس کیس کو مزید الجھا دیا ہے۔ اب مصطفی اغوا و مبینہ قتل کیس کی تفتیش کا سارا دارومدار مرکزی ملزم آرمغان سے مکمل و جامع تفتیش۔۔ مقتول کی قبر کی قبر کشائی۔۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ۔۔۔۔ ملزم کے گھر حاصل ہونے والے خون کے نمونوں اور فرار ہونے والی لڑکی مارشا کے بیان منحصر ہے۔