تحریر: مقبول خان
پاکستان میں مزدور تحریک خواب و خیال ہو چکی ہے، ٹریڈ یونین تحریک کو جتنا نقصان آجر اور بیوروکریسی (نوکر شاہی) نے پہنچایا ہے، اس سے زیادہ نقصان مزدور رہنماؤں کی مفاد اور موقعہ پرستی نے بھی پہنچایا ہے، پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا ماضی شاندار رہا ہے، یونینز کے ذریعہ نہ صرف محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، بلکہ ملکی معیشت کے فروغ میں بھی ٹریڈ یونینز کا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی اس وقت کے مزدور رہنما کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں ہوتے تھے، اور نہ ہی ان کی وابستگی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہوا کرتی تھی، وہ ہر اس جماعت کا ساتھ دیتے تھے، جو مزدوروں کے حقوق کےلئے عملی جدوجہد کرتی تھی، بیشتر ٹریڈ یونین رہنماؤں کا جھکاؤ بائیں بازو کے نظریات کی طرف ہوتا تھا۔ اسی طرح اس دور کے ٹریڈ یونین کارکن بھی اپنے حقوق وفرائض سے آگاہ تھے۔
پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا دائرہ نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر کی طرف تھا، بلکہ سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں تک پھیلا ہوا تھا۔ کراچی میں سائٹ اور کورنگی و لانڈھی کے صنعتی علاقوں کی سیکڑوں فیکٹریوں میں یونینز فعال اور سرگرم تھیں، جو مختلف مزدور فیڈریشنز سے ملحق تھیں، پرائیویٹ سیکٹر میں ٹیکسٹائل ملوں کی یونینز کے ساتھ جنرل ٹائر کی یونین بھی انتہائی فعال یونینز تھیں۔ اس کے ساتھ سرکاری اداروں پاکستان پوسٹ، کے ایم سی، سندھ گورنمنٹ پریس، پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس، کراچی پورٹ ٹرسٹ، شپ یارڈ، پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم، کے ای ایس سی، ( موجودہ کے الیکٹرک) پاکستان ریلویز، ٹی اینڈ ٹی، پانچوں قومیائے گئے بینکوں سمیت دیگر ادروں نجی ادروں اور فیکٹریز میں یونینز انتہائی فعال اور مضبوط تھیں، ان اداروں میں ہر سال کے بعد الیکشن یا دو سال بعد ریفرنڈم ہوا کرتا تھا۔ اس طرح ورکرز کو جمہوری روایات سے بھی آگاہی ہوا کرتی تھی۔
کراچی میں ٹریڈ یونین کلچر مستحکم تھا۔ مزدور رہنماؤں کی قیادت میں کارکن اپنے حقوق کے لئے جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کیا کرتے تھے، اسی طرح حکومتوں کی مزدور اور عوام دشمن پالیسیوں سمیت مہنگائی کے خلاف جلسے کرتے اور احتجاجی جلوس اور ریلیاں بھی نکالا کرتے تھے۔ اور کارکن بھی اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ٹریڈ یونینز سر گرمیوں میں بھر پور انداز میں حصہ لیا کرتے تھے۔ بیشتر اخبارات میں بھی یونینز ہوا کرتی تھیں، جبکہ شہری سطح پر جرنلسٹس یونینز کے ساتھ ایک مرکزی ادارہ پی ایف یو جے کے نام سے کام کرتا رہا ہے، دیگر صنعتی اور سرکاری اداروں کی طرح صحافیوں کی یونینز موجود تو ہیں لیکن غیر فعال ہوچکی ہیں۔
پاکستان میںٹریڈ یونین تحریک کے زوال کے متعدد اسباب ہیں، پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں اس کی آمرانہ اور مزدور دشمن پالیسوں کے نتیجے میں ٹریڈ یونین تحریک زوال شروع ہوا، اسی لئے جنرل ضیاء کے دور کو ٹریڈ یونین کی تاریخ کا سیاہ دور قرار دیا جاتا ہے، اس دور میں ادروں اور فیکٹریوں میں کنٹریکٹ سسٹم کا آغاز ہوا اور محنت کشوں کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا، جن میں معیادی ورکرز، عارضی ورکز اور ڈیلی ویجز جیسی اصطلاحات منظرعام پر آئیں۔ جس کا آجروں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، کیونکہ یونین سازی کا حق صرف قانونی طور پر صرف مستقل ملازمین کو حاصل ہے، یہاں ایک رپورٹ کے یہ اعداد و شمار یونین ازم کے حوالے سے چشم کشا ہیں۔ پاکستان میں اس وقت محنت کشوں کی تعداد 6 کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے، اس طرح پاکستان لیبر فورس کے حوالے سے دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے، اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ یونینز کی تعداد 945 ہے، جن کے ممبران کی مجموعی تعداد تین لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں صرف تین فیصد محنت کشوں کو یونین سازی اور یونین کا ممبر بننے کا حق حاصل ہے۔ یہ بلا شبہ ٹریڈ یونین تحریک کے حوالے سے ایک بڑا المیہ ہے۔ اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک اس وقت آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ ہم یہاں ٹریڈ یونین تحریک کے زوال کے اسباب کا جائزہ لینے سے قبل پاکستان مزدور تحریک کے پس منظر اور اس کے شاندار ماضی کا جائزہ لیتے ہیں۔
تاریخی پس منظر
پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا تاریخی پس منظر قیام پاکستان کے ساتھ ہی منسلک ہے، یہ امر یہاں قابل زکر ہوگا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 1925 میں لیبر لیڈر بھی تھے۔ وہ آل انڈیا پوسٹل اسٹاف یونین کے منتخب صدر بھی رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ مضبوط ٹریڈ یونین تحریک ورثہ میں ملی تھی۔ جن میں مرزا ابراہیم مرحوم کی زیر قیادت لاہور ریلوے ورکشاپ یونین، ہائیڈرو الیکٹرک سینٹرل لیبر یونین، جس کی قیادت بشیر بختیار مرحوم کر رہے تھے، جبکہ صوبہ سندھ میں کومل فلور مل اور گنیش کھوپرا مل کی یونینز انتہائی مضبوط اور سرگرم یونینز تھیں، جن کی قیادت آنجہانی نارائن داس کر رہے تھے، اس کے علاوہ کراچی میں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور شپ یارڈز کی یونیز بھی فعال تھیں۔ مزدور اپنے حقوق اور مراعات کے لئے مظاہروں، جلسوں جلوسوں اور ہڑتالوں کے ساتھ قانونی جدوجہد کیا کرتے تھے، اور مالکان کے خلاف اپنے تنازعات کو لینر کورٹس میں لے جاتے تھے، جہاں سے انہیں انصاف بھی ملا کرتا تھا۔ کراچی میں سائٹ کے صنعتی علاقے کے قیام کے ساتھ ہی کراچی میں فیکٹریوں اور کارخانون کے قیام کے ساتھ ہی وہاں یونین سازی کا عمل بھی تیز ہوگیا، اور ٹریڈ یونین تحریک کو بھی فروغ ہونے لگا، اس کے ساتھ ولیکا اور باوانی ٹیکسٹائل ملوں کی یونینز بھی سرگرم ہوچکی تھیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی سطح پر ٹریڈ یونین تحریک کا فعال کردار 1968میں نظر آیا، پاکستان کی فعال یونیز اور لیبر فیڈریشنز کے رہنماؤں نے متحد ہوکر اس وقت کے صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت کے خلاف منظم انداز میں تحریک چلائی، اور ہفتہ مطالبات منایا گیا، کہا جاتا ہے کہ مشہور حکومت مخالف نعرہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو، شاید اسی تحریک میں پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے صنعتی ارتقا کے نام پر صنعتکاروں کو فری ہینڈ دے دیا تھا، جس کی وجہ سے صنعتکاروں نے مزدور قوانین بالائے طاق رکھ کر من مانی شروع کر دی تھی۔ جس کے نتیجہ میں محنت کشوں کے حقوق پامال ہونا شروع ہوئے، جس پر مزدور رہنماؤں نے مزدوروں کے حقوق دلانے کے لئے منظم انداز میں تحریک چلائی ، مزدوروں کی اس منظم تحریک کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کامیاب تحریک کے چند ماہ بعد ہی جنرل ایوب خان کی گیارہ سالہ آمرانہ حکومت اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ اس دور میں متعدد قد آور مخلص مزدور رہنما اپنے اپنے حلقوں میں ٹریڈ یونین تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ ان میں سعید پاشا، (ایس پی) لودھی، نبی احمد، کنیز فاطمہ، گلزار بیگم، واحد نیازی، اکرم دھاریجہ، فرحت رضوی، حبیب الدین جنیدی، عبدالعزیز میمن، عثمان غنی وغیرہ قابل زکر ہیں۔