کراچی: ڈیسک میگا اسکینڈل اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی کو مکمل رد کرتے ہیں، جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کی جائے اور اپنی کرپشن پر ڈالنا کے لیے اپنے ماتحت افسران پر انکوائری کمیٹی بنائی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ 18۔19۔اور 20 گریڈ کے لوگ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے خلاف تحقیقات کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ آصف میمن ورکرز ویلفیئرمیں سعید غنی کے دست راست رہے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ اس صوبے میں ڈی جی کے ڈی اے وہی لگ سکتا ہے جو کرپٹ سسٹم کا حصہ ہوتا ہے۔ نظام الدین شیخ ایجوکیشن ورکس میں چیف ایجوکیشن کے عہدے پر رہے ہیں۔ دلاور منگی پی اینڈ ڈٰی میں کرپشن الزام کے تحت 19 سے 17 گریڈ میں بھیجے گئے۔ فضل اللہ پیچوہو کے دور میں دلاور منگی کو کرپشن کے باعث ہٹایا گیا تھا اور تمام افسران مختلف ادوار میں محکمہ تعلیم سے منسلک رہے ہیں۔ آج محکمہ تعلیم سے ریکارڈ بھی ایک سندھ حکومت کے ماتحت ادارے نے اٹھالیا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ کے ہاتھ صاف ہیں تو اس معاملے پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیں۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ 2019 میں بھی ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے مرحوم صدیقی صاحب پر اعتراضات کیے تھے۔ سندھ کے چند نام نہاد نامور ناموں کو اپنے غلط کاموں پر پردا ڈالنے کے لیے اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ کورونا کمیٹی، یا چیزیوں کی خریداری یا کسی غلط کام کو ٹھیک کرنا ہو تو ان کی خدمات لی جاتی ہیں۔ اس کمیٹٰی سے اپنے مطلب کی رپورٹ لیکر عدالتوں اور نیب میں جمع کرانا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت کے اس عمل کے خلاف عدالتوں اور نیب سے رجوع کریں گے۔