تبصرہ: مقبول خان
کتاب اقلیم سخن ڈاکٹر فائزہ زہرا مرزا کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل فائزہ مرزا نے 2013 میں ارمغان عشق کے نام سے علامہ اقبال کی اردو دو بیتوں کا منظوم فارسی ترجمہ کیا۔ جو خانہ فرہنگ ایران سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ابو سعید ابولخیر کی رباعیات کا نثری ترجمہ میراث خیر کے نام سے 2015 میں شائع ہو چکا ہے۔ 2018 میں امیر مینائی کے منتخب اشعار پر مبنی کتاب اشعار امیر مینائی اور 2021 میں امیر مینائی کی دو فارسی لغات سرمہ بصیرت اور معیار الغلاط کی تصیح و تدوین و اشاعت بھی ڈاکٹر فائزہ مرزا کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ فائزہ مرزا کے مذکورہ علمی و ادبی کام کے سرسری جائزہ کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فائزہ مرزا نہ صرف شاعرہ ہیں، بلکہ علمی مرتبہ کی حامل مولفہ، مدون، مترجم اور محقق بھی ہیں۔ مترجم کے طور پر فائزہ مرزا نے فارسی سے اردو میں شعروں کے جو ترجمے کئے ہیں، ان میں فائزہ کی قادرالکلامی بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔ انہوں نے سندھی نظموں کے جو اردو ترجمے کئے ہیں، ان میں نفاست کے ساتھ بلاغت کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ فائزہ مرزا کا یہ شعری مجموعہ قدرے تاخیر سے منظر عام پر لایا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس سے قبل ان کی زیادہ تر توجہ نثر کی طرف رہی، اور نثری تصانیف، تالیف ،ترتیب، ترجمہ اور تحقیق میں مصروف رہیں۔ پاکستان، ایران اور ہندوستان میں فارسی زبان وادب سے وابستہ علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر فائزہ مرزا کا نام ایک محقق، صاحب نظر ماہر لسانیات، مدیرہ و مترتبہ کے طور پر عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ فائزہ مرزا کو شاعری کا فن ورثے میں ملا ہے۔
نبیرہ شمس العلماءمرزا قلیچ بیگ ہونے کی وجہ سے سے گھر میں سندھی زبان و ثقافت رائج ہے۔ والد اور والدہ دونون تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے، اس لئے والدہ نے ان کی اردو تحریر اور تلفظ پر خصوصی توجہ دی۔ ان کے والدین اور اجداد کا فارسی زبان سے گہرا لگاو تھا، بزرگوں کی فارسی زبان سے محبت کو دیکھتے ہوئے کالج میں فارسی مضمون کا انتخاب کیا، اور ماسٹرز بھی اسی مضمون میں کیا۔ مادری زبان سندھی رکھنے کے باوجود ڈاکٹر فائزہ اردو کی اچھی شاعرہ ہیں۔ فارسی زبان سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے بطور استاد وابستہ ہیں۔ انہیں یہاں گولڈمیڈلسٹ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر چکی ہیں۔ اس پس منظر کے بعد ڈاکٹر فائزہ کی علمی و ادبی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا بد دیانتی ہوگی۔ اقلیم سخن میں زیادہ تر شاعری مذہبی ہے۔ ان کے شعری مجموعے اقلیم سخن میں حمد، نعت، منقبت، سلام، نوحے شامل ہیں، اس تقدیسی شاعری کے ساتھ کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ملتی ہیں ۔فائزہ مرزا کے شعری مجموعے اقلیم سخن کے مطالعے کے بعد سب سے پہلے جو بات میرے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعری مودت اہلیبیت سے لبریز ہے۔ ان کے زیر تبصرہ مجموعے میں حضرت فاطمہ زہرا کی منقبت نمایاں نظر آتی ہیں۔ فائزہ مرزا کی رثائی شاعری میں جذبات کا احساس بے کراں ملتا ہے اس کے ساتھ قرانی علم و حکمت کے موتی بھی نظر آتے ہیں۔ احادیث، ار ائمہ معصومین کے اقوال بھی اشعار میں خوبصورتی سے ڈھالے ہیں۔ فائزہ مرزا نے سیدہ زینب کے قصائد کو بھی اقلیم سخن میں شامل کیا ہے۔ قصائد کے اشعار میں فصاحت اور روانی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں کربلا کا زکرمحض آہ و فغاں اور گریہ و بکا کے لئے نہیں ہے، بلکہ زکر کربلا فکری استدلال کے ساتھ ملتا ہے۔ اقلیم سخن کا ایک حصہ تراجم پر بھی مشتمل ہے۔ ان میں کچھ ترجم فاسی سے ہیں اور کچھ سندھی سے کئے گئے ہیں۔ اور ان تراجم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تراجم منظوم ہیں۔ ڈاکٹر فائزہ کے کلام میں دس غزلیں بھی شامل ہیں، اگر چہ شعری مجموعے میں عددی اعتبار سے غزلوں کی تعداد کم ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والے مجموعوں میں غزلیں بھی شامل ہوں، تاہم زیر نظر شعری مجموعہ فائزہ کی مذہبی شاعری پر مشتمل ہے۔ فائزہ مرزا کے مجموعہ کلیم میں قطعات بھی ہیں۔ جو مختلف موضوعات پر قلمبند کئے گئے ہیں۔ ہر قطعہ اپنی مثال آپ نظر آتا ہے، خاص طور پر امام زمانہ اور عریضے کے حوالے سے قطعہ قابل توجہ ہے۔ اقلیم سخن کے مطالعہ کے بعد ڈاکٹر فائزہ مرزا ایک قادرالکلام شاعرہ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ شعری مجموعے اقلیم سخن کو دنیائے شعرو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ فائزہ مرزا کے شعری مستقبل سے بہتر روقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
امید ہے کہ ان کے شعری سفر کے ساتھ ادبی اور تحقیقی میدان مین مزید گراں قدر تخلیقات منظرعام پر آتی رہیں گی۔ مرزا پبلی کیشنز کے تحت منصہ شہود پر جلوہ گر ہونے والا یہ شعری مجموعہ 360 صفحات پر مشتمل ہے۔ عمدہ طباعت میں بہترین کاغذ کا استعمال، نیز سادہ مگر دیدہ زیب سرورق بھی کتاب ک دیدہ زیب بنا رہا ہے۔ اقلیم سخن کے حوالے سے محمد اظہارالحق، اشفاق حسین، ڈاکٹر ہلال نقوی، افتخار عارف، جاوید حسن اور ارتضیٰ جونپوری نے ڈاکٹر فائزہ کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل اظہار خیال کیا ہے۔