تحریر: سمیر قریشی
کہانی شروع ہوتی ہے ایک افسر کی جو کہ انویسٹی گیشن میں تعینات تھا، انویسٹی گیشن سے نکل کر اس کا تبادلہ ملیر ضلع میں ہوا، اور وہ ایس ایس پی ملیر تعینات ہو گیا، جس نے کراچی کے بڑے ضلع کا چارج لیا، ماحول دیکھا اور اپنی حکمت عملی کے ذریعے تمام ماتحت افسران و ملازمین کو اپنے ٹھنڈے مزاج سے کام کو گرما دیا، ایسا لگنے لگا ملیر ضلع میں پولیس اور عوام کو ایک مسیحا مل گیا ہے، اس نے نہ کسی اسٹاف کو تبدیل کیا اور نہ ہی اپنے لوگوں کو بلا کراہم عہدوں پر براجمان کیا، بات ہورہی ہے سابق ایس ایس پی ملیر طارق مستوئی کی۔
میری اس تحریر کا یہ مقصد نہیں کہ میرے مذکورہ افسر سے بہت قریبی تعلقات ہیں بلکہ میرا تو فون کبھی اس افسر نے اٹھایا بھی نہیں اور میسج پر بھی کبھی شاد و نادر ہی جواب دیا ہے، لیکن یہ تو ہم صحافیوں کے اور پولیس افسران کے آپس میں شکوے چلتے رہتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر وقت کسی پولیس افسر کو تنقید کا ہی نشانہ بنایا جائے، اس کی اچھائیوں اور کارکردگی کو بھی اجاگر کیا جانا چاہئیے، تاہم ضروری نہیں کہ جو دل کے قریب ہو وہ ہی شہہ سرخیوں کی زینت بنے۔
طارق مستوئی نے ضلع ملیر کا چارج لینے کے بعد پہلے سے موجود عملے کو تبادلہ کرنے کے بجائے کارکردگی بہتر کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اپنے دفتر سے اصلاحات کا آغاز کیا اور ضلع ملیر کے ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور ہیڈ محرران کی میٹنگ کرکے سب سے پہلے کو ان کے کام کو سراہا اور کہا کہ میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے، بڑی ذمہ داری میری ہے، گھر کا سربراہ باپ ہوتا ہے، اولاد اگر کچھ غلط کرے تو اس کا خمیازہ گھر کے بڑے کو بھگتنا پڑتا ہے، اس افسر کی یہ بات سن کر نچلے عملے میں ایک جوش پیدا ہوا کہ یہ کیسا پی ایس پی افسر ہے جو اتنا نرم مزاج کہ اپنے ماتحتوں کو والدین کی طرح نصیحت کررہا ہے ورنہ محکمہ پولیس میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ افسران سزائوں کا خوف دلا کر کام کرواتے ہیں، انہوں نے اپنے عملے کو یہ بھی ہدایت دی کہ ضلع ملیر کے پولیس اہلکاروں کی چھوٹی موٹی سزائیں معاف کردی جائیں، جن میں مختصر غیر حاضری، بوجہ بیماری و گھریلو مسائل شامل ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس اہلکار کی 5 دن کی غیر حاضری پر 10 دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی تھی لیکن انہوں نے شفقت کا ہاتھ رکھا اور اہلکاروں کو ریلیف دینے کی ہدایت جاری کیں، یہ جملہ کہنا بے جا نہ ہوگا ‘تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد’ کہ طارق مستوئی نے اپنے دور میں کسی دبائو میں آئے بغیر کام کیا اور عوام اور پولیس کے درمیان فاصلوں کو دور کرنے کیلئے پورے ملیر میں ہر تھانے کے باہر ایس ایچ اوز کی سائل سے ملاقات کیلئے وقت مختص کرنے کے حوالے سے بینرز آویزاں کرائے۔ اپنے آپ کو ضلع کا بادشاہ سمجھنے کے بجائے عوام کا خادم سمجھا اور ضلع بھر کے ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرران کی کارکردگی بہتر بنا کر جرائم کا قلع قمع کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں، یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کو افسران و اہلکاروں کے علاوہ ضلع ملیر کی عوام بھی اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی جب ان کا ضلع ملیر سے تبادلہ ہوا جو انہوں نے سی ٹی ڈی کا چارج لیا، سی ٹی ڈی کے بارے میں کئی متضاد اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں وہاں جتنے بھی افسران آئے، ان کی ماہانہ اور ہفتہ وار آمدنی تو اپنی جگہ لیکن پیٹرول کارڈ بھی ضبط کرلئے جاتے ہیں جس سے وہ خود اور ان کے اہل خانہ استفادہ کرتے ہیں، لیکن طارق مستوئی نے سی ٹی ڈی کا چارج سنبھالتے ہی وہاں کے عملے کے بھی دل جیت لئے، پہلے دن ہی تمام افسران کو ان کے پیٹرول کارڈ واپس کردیئے گئے جن کی بندر بانٹ ہورہی تھی اور یہ جملہ کہا کہ میں کوئی بھوکا ننگا نہیں سب کے کارڈ ان کو واپس کردو۔ کہنے کو تو یہ بہت چھوٹی بات ہے لیکن محکمہ پولیس میں اس سے بڑی بات ہو نہیں سکتی، کیوں کہ بڑے بڑے ایماندار افسران نے اپنے عملے کے ‘فیول کارڈز ‘ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی آسائشوں کیلئے محفوط کر رکھے ہوتے ہیں۔
کراچی پولیس میں طارق مستوئی جیسے افسران بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہر پولیس افسر یا ملازم کو اپنا سمجھتے ہیں ورنہ زیادہ تر افسران اپنی ہی خاص ایک ٹیم کو ہمراہ لیکر چلتے ہیں جس کی وجہ سے میرٹ کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں جس کے باعث متعدد افسران کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔