کاغذ اور قلم کی گفتگو (افسانہ)

0
13

تحریر: ریاض بلوچ

کاغذ نے کہا: “میرے جنم کے بعد دنیا کی تقدیر بدل گئی۔ میں نے انسان کی اجتماعی دانش کو محفوظ کیا”۔

قلم نے جواب دیا: “یہ سب کچھ میرے بغیر ممکن نہ تھا”۔

کاغذ بولا: “تمہارا وجود میرے بغیر بے معنی ہے۔ کیا دھاتوں یا پتھروں پر تمہاری سیاہی محفوظ رہتی؟”

قلم نے کہا: “اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم میرے بغیر یہ کامیابیاں سمیٹ سکتے۔ میں نے ہی تم پر حاکم کے فیصلے، محکوم کے آنسو، اور بیمار کے لیے طبیب کا نسخہ تحریر کیا، جس کے باعث دنیا نے تمہاری اہمیت کو تسلیم کیا”۔

کاغذ نے کہا: “تم نے ہمیشہ حاکم کا ساتھ دیا، جبکہ میں نے چِٹھی بن کر زندان میں قید مظلوم کی فریاد کو آواز دی۔ میں روشنی کی کرن بن کر قید خانے میں امید کی شمع روشن کرتا رہا۔ میں نے محبت کی آبیاری کی”۔

قلم نے کہا: “کیا تم خود حاکم کی خوشنودی کے خواہاں نہ تھے؟ وہ تمہیں بار بار فرمان بنا کر محکوموں پر نافذ کرتا رہا، اور جب اس کا کام ختم ہوجاتا تو وہ تمہارے ٹکڑے کرکے کوڑے دان میں پھینک دیتا۔ ‘کاغذ کا ٹکڑا!’۔۔ ۔
یہ فقرہ کاغذ کو بہت ناگوار گزرا، اور پہلی بار اس نے بے بسی محسوس کی”۔

کاغذ نے کہا: “میں ہمیشہ تمہارا فرمانبردار رہا، اور تسلیم کرتا ہوں کہ تم نے انسانیت کی خدمت بھی کی۔ لیکن اب تم کیا کر رہے ہو”؟

قلم نے حیرت اور غصے سے پوچھا: “میں نے کیا کیا ہے”؟

کاغذ نے کہا: “تم دواساز کمپنیوں کی کمیشن سے آلودہ ہو کر ایسی تحریریں لکھتے ہو جو معمولی امراض کو جان لیوا بنا دیتی ہیں! اور تمہارے ساتھ مجھے بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ترازو کی ناپ تول میں بے ایمانی کی جاتی ہے، تو تم بغیر کسی مزاحمت کے وہ غلط اعداد و شمار مجھ پر درج کر دیتے ہو، جو بازار میں بداعتمادی پیدا کرتے ہیں اور سماج کا توازن بگاڑ دیتے ہیں”۔

قلم بولا: “یہ ترازو کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ ناپ تول میں شفافیت نہیں رکھتا تو میں کیا کر سکتا ہوں؟”

کاغذ نے کہا: “ترازو ہمیشہ گِرانی کا طرفدار رہا ہے۔ وہ سُبک پر گِراں کو ترجیح دیتا ہے، لیکن تم کسی ایک علامت سے اُس کی نیت کا پوسٹ مارٹم کر کے مظلوم کو آگاہ کر سکتے ہو”۔

قلم نے کہا: “میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں!”

کاغذ نے کہا: “میں نے کہا ناں، تم حاکم کے چہیتے بن گئے ہو۔ ترازو کے ایک جانب جھکاؤ کی وجہ سے روشن دن سیاہ رات میں بدل جاتا ہے۔
مانا کہ لوگ تمہاری بات پر یقین رکھتے ہیں لیکن تم پھول کو غلاظت و چاندنی کو تاریکی کا استعارہ بناٶ اور لوگ یقین کریں! ایسا نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کی شاعری میں پھول، خوشبو کا استعارہ ہے۔ چاندنی، سیاہ رات کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ ایک گنوار بھی جانتا ہے کہ چاندنی دنیا کو مُنوّر کرتی ہے، مسافر کو بھٹکنے سے بچاتی ہے۔ اب ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، خوامخواہ اپنی عاقبت خراب نہ کرو”

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دونوں نے یک آواز ہو کر کہا:
“ہمیں کوئی ایک نشانِ تخلیق کرنا چاہیے، ورنہ ہمارا وجود بے معنی ہے”۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں