تحریر: وسیم رضا نقوی
کچھ ماہ پہلے میں کمرہ عدالت سے باہر نکلا، ڈائری چیک کی۔ جی وہ ڈائری جس پر وکلا اپنے روز مرہ کیسیز کی تاریخ اور تفصیل لکھتے ہیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ کورٹ میں مزید کوئی کام نہیں رہا۔ میں بار روم میں بیٹھنے کا عادی نہیں تو سیدھا اپنے دفتر کو چل دیا۔ قید خانہ راہ میں ہی پڑتا ہے جہاں جیل سے قیدیوں کو لاکر ایک ساتھ بند کردیا جاتا ہے۔ پھر ترتیب سے کس کو کونسی عدالت میں اور کب بھیجنا ہے وہ سب اسی قید خانے سے ہوتا ہے۔
جب بھی دیکھیں تو اس قید خانے کے سامنے خاندان کے افراد اور ملنے والوں کا رش رہتا ہے۔ ہر آنکھ اسی انتظار میں ہوتی ہے کہ کب اس کا پیارا نکلے اور اس سے ملاقات ہو۔
میں آفس کی طرف آرہا تھا غالباً صبح گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ دو بچیاں اپنی ماں کے ساتھ اسکول کے یونیفارم میں اُسی قید خانے کے سامنے کھڑی تھیں۔ نگاہیں بے حد انتظار میں مسلسل قید خانے کے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں اور ہر قیدی کے نکلنے کے ساتھ وہ اس طرح چونک جاتیں جیسے یہ وہی ہو جس کا انتظار ہورہا ہے!
اتنے میں بیساکھیوں کا سہارا لیے ایک قیدی باہر نکلا جسے دو پولیس والوں نے سہارا دیا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ قیدی دروازے سے باہر نکلا ان دونوں بچیوں نے جو مسلسل انتظار میں تھیں اس قیدی کی طرف لپکیں اور وہ قیدی ان بچیوں کی طرف۔ گویا جیسے مقناطیس ایک دوسرے کو اپنے جانب کھینچتا ہے۔ ابھی سیڑھیاں اترا ہی تھا یہ آپس میں ایسے ملے جیسے صدیوں سے کوئی یعقوب اپنے یوسف کا منتظر ہو۔
اُس قیدی نے ان دونوں بچیوں کو بے انتہا چومنا شروع کردیا اور روتا رہا، بیٹیاں بھی اپنے باپ سے لپٹی رہیں۔
یہ سب کچھ میں ایک کنارے پر کھڑا دیکھتا رہا، جب مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں قیدی کے پاس گیا اور تفصیلات پوچھیں۔ اُس کا نام مہران تھا اس کے پائوں میں گولیاں پولیس مقابلے میں لگیں تھیں۔بچل پھر نہیں سکتا تھا باقی وہ گناہ گار ہے یا بے گناہ وہ فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن کوئی چاہے قاتل ہو ڈکیت ہو چور ہو یا کوئی بھی مجرم مگر وہ ایک باپ بھی ہوتا ہے۔ میں نے مہران کو ایک ملزم کی نظر سے نہیں ایک باپ کی نظر سے دیکھا اور یہی سوچتا رہا کہ کسی بھی انسان کو قتل کردینے والے اگر یہی سوچ لیں کہ وہ بھی کسی کا باپ بھائی بیٹا ہوگا۔ اس کی بھی ایسی ہی اولاد ہوگی جو اپنے باپ کا بھی اسی بے تابی سے انتظار کرتیں ہونگی جیسے مہران کی بیٹیاں اس کا کررہی تھیں۔
کاش کے ایسا ہوتا۔۔۔!
ہاں جب میری مہران سے بات ہورہی تھی تو اس کی بیوی نے بتایا کہ بیٹیوں نے اسکول میں لنچ نہیں کھایا وہ کہہ رہیں تھیں آج ہم اپنے بابا کے ساتھ لنچ کریں گے۔!
میں نے مہران سے اجازت لی اور اس کی یہ تصویر بنائی۔