تحریر: رابعہ خان
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آرمی پبلک اسکول اور کالج پر حملے کو چھ برس بیت گئے ہیں۔ یہ دل دہلا دینے والا واقع جن کی بھی نظروں سے گزرا وہ اس حملے کو بھلائے نہیں بھولا پاتے۔ یہ واقع شہداء کے والدین کو خون کے آنسوں رلا دیتا ہے۔ 16دسمبر 2014 کا درد ناک واقع شہدا کے والدین اور بہن بھائیوں کی آنکھوں میں آج بھی نمی کا باعث بنتا ہے۔ شدت پسندوں کے حملے سے 141 طلبا شہید ہوئے جبکہ اسکول اسٹاف کے دیگر افراد بھی اس میں شہید ہو گئے تھے۔ اس بہیمانہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ معصوم شہداء کی یاد میں ملک بھر میں دعا گوئی کی جاتی ہے اور بعض مقامات پر خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
بات صرف پبلک اسکول پشاور حملے تک ہی نہیں رہتی دیکھا جائے تو آئے روز کبھی کوئی مسجد دہشت گردوں کا نشانہ بنتی ہے تو کبھی پاک فوج کی چوکیوں پر حملہ ہوتا ہے۔ 2008 کی اگر بیان کریں تو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں دہشت گردی کا واقع پیش آتا ہے جو کہ فائیو سٹار ہوٹل پر حملہ کیا گیا۔ جسے بعض لوگوں نے ملکی تاریخ کا نائن الیون قرار دیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے اس خود کش حملے میں ملکی و غیر ملکی 50 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
آخر دہشت گرد ہوتا کون ہے؟ کیسے بنتا ہے دہشت گرد؟ کون بناتا ہے؟ کیوں آج ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو اسلام کے نام پر تو کہیں غیرت کے نام پر قتل کرتا نظر آتا ہے۔ معصوم بے گناہ شہریوں اور بچوں کو اتنی بے دردی سے دھماکوں سے اُڑایا جاتا ہے۔ کیا جانیں اتنی سستی ہو کئیں ہیں۔ کب تک چلے گا ایسا؟ کب ختم ہوگا یہ سب یا کبھی نہیں ہوگا؟ آئے روز معصوم لوگوں کو دہشت گردوں کے بم دھماکوں سے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ملک دشمن اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے مسجدوں اور اسکولوں کو اپنی زد میں لے لیتے ہیں کیا ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کے محافظ ہیں یہ جہاد ہے؟ اسے جہاد کہتے ہیں کہ کسی بھی بے گنا کی زندگی چھین لی جائے۔ ایک آرمی پبلک اسکول نہیں بلکہ اور بھی بیشمار اسکولز خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول تباہ کر دیے جاتے ہیں تاکہ بچیوں کو تعلیم کے حصول سے محروم رکھا جائے۔ اب ہماری حکومت کو اس پر مؤقف اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔ اور ایسا کرنا بھی ہوگا ورنہ ملک میں انتشار پھیلے کا، ملک بم دھماکوں سے تباہی کا نشانہ بنتا رہے گا، انتظامیہ کو اس حوالے سے مناسب انتظامات کرنا ہونگے تاکہ کوئی آرمی پبلک اسکول، کوئی پشاور مسجد، کوئی بلال مسجد یا کوئی فائو اسٹار ہوٹل انتہا پسندی کا نشانہ نہ بنے مستقبل میں۔