عورت زبان چلاتی ہی نہیں، ایجاد بھی کرتی ہے

0
27

تحریر: نصرت امین

جینڈر (صنف) اور زبان کا آپس میں تعلق ماہر لسانیات کے لئے برسوں سے ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق لسانیات کے سماجی پہلووں کے تحت، لب و لہجے، الفاظ اور محاوروں کے چناؤ، آواز کے اتار چڑھاؤ اور اُٹھان کے معاملے میں خواتین مردوں سے کافی مختلف واقع ہوئی ہیں۔ یعنی صنف (جینڈر) بولی جانے والی زبان  میں لہجے سے لے کر لفظوں تک تغیر کا بڑا سبب بنتی اور بن سکتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ اس سے قبل کبھی اس موضوع پر دھیان نہیں گیا تھا، نہ ہی اس پر کبھی کچھ کہنے یا لکھنے کا کہا گیا۔ البتہ چند روز قبل ہی فیس بک پر تزین حسین کی ایک پوسٹ میں پرانی دِلّی کی خواتین کے مختلف لب و لہجے اور محاوروں پر ایک دلچسپ ویڈیو دیکھنے کو ملی۔ پھر فورا ہی گوگل کے ذریعے اس موضوع پر چند انتہائی دلچسپ مضامین پڑھنے کو ملے۔ سماجی لسانیات کے چند مشاہدات بھی سمجھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔اندازہ ہوا کہ مرد اور عورت کے لہجوں اور زبان میں فرق ہمیشہ سے ایک بڑی حقیقت رہی ہے، اور لاشعوری طور پر ہم سب نے اس حقیقت سے سمجھوتہ کیا ہوا ہے، البتہ اس پر اثر انداز ہونے کے لئے آگہی کی ایک دستک ضروری تھی، جو اب دستیاب ہوئی ہے۔ بہرحال یہ تو اس شعبے کے ماہرین کی بات تھی، مجھے جتنا سمجھ میں آیا، وہ انتہائی محتاط انداز میں یہاں درج کررہا ہوں۔

تو معاملہ کچھ ایسا ہے کہ اس شعبے میں خاص تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صنف (جینڈر) خاص طور پر زبان، ادائیگی، لہجے اور اُٹھان کی سطح پر زبان کے تغیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بہت سے معاشروں میں مرد اور خواتین ایک ہی زبان کی الگ الگ لسانی طرزیں پیدا کرتے ہیں، جن کا معاشرتی توقعات، ٹیبوس اور کمزور و طاقتور ہونے کے اظہار سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، انیس سو نوّے میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق، جاپانیوں میں خواتین زیادہ شائستہ زبان اور آواز کی بہتر قسم کا استعمال کرتی ہیں، جب کہ وہاں کے مرد عموماً براہ راست اور بھونڈے طریقے سے گفتگو کرتے ہیں۔ یہ بھونڈا پن بظاہر خاص ایشیائی پدری معاشرے میں مرد کی فطری بے فکری سے جُڑا ہوتا ہے۔

اسی طرح عرب معاشروں پر کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان زبان، آواز اور لہجے کا فرق انتہائی واضح ہوتا ہے۔ عرب خواتین پر تکلف ماحول میں زیادہ رسمی اور کلاسیکی عربی کا استعمال کرتی ہیں، جب کہ عربی زبان بولنے والے مرد بول چال کے عام طریقوں کے مطابق تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ جملوں اور الفاظ کی ادائیگی میں یہ بھی جاپانی مردوں کی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس معاملے میں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ افریقی امریکی خواتین کی گفتگو زیادہ سُریلی، شائستہ اور مائل کرلینے والی ہوتی ہے، ان کے انگریزی لب و لہجے میں جذبہ اور تاثرات واضح ہوتے ہیں، اور وہ بات کرتے ہوئے بظاہر دانستہ طور پر شگفتہ اور مسحور کن آواز اختیار کرتی ہیں۔ جب کہ سیاہ فام امریکی مرد انگریزی بولتے ہوئے سیدھے اور براہ راست جملے استعمال کرتے ہیں، وہ بہت سے الفاظ کی صوت جزوی طور پر کھا جاتے ہیں، بہت سے جملوں اور لفظوں کا آخری حصہ ڈھنگ سے ادا نہیں کرتے، سخت کانسون نٹس کو کبھی سائلنٹ کردیتے ہیں یا کبھی انتہائی سافٹ طریقے سے تیزی سے ادا کردیتے ہیں۔ یعنی وہ ٹائٹینک کو انتہائی تیزی سے ٹائی-ینیک کہنے میں امریکی گوروں سے بھی آگے ہوتے ہیں۔ ان کا انداز جارحانہ ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ جلدی میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

میرا خیال تھا کہ افریقی امریکی خواتین کا یہ لب و لہجہ ان کے مردوں کے بھونڈے پن کا رد عمل ہے۔ لیکن تازہ مطالعے کے مطابق دنیا کے بہت سے معاشروں میں عورت اور مرد کی طرز گفتگو میں یہ بنیادی فرق کثرت سے پایا جاتا ہے، لہذا مجھے معلوم ہوا کہ یہ کوئی نئی اور حیرانی کی بات نہیں، البتہ یہ نسبتا نیا مشاہدہ ضرور ہے۔ متعلقہ تحقیق سے حاصل کردہ حقائق انتہائی دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔

سماجی لسانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زبان کے بولے جانے والے ورژن کا استعمال، ایک جانب روایتی طور پر جینڈر کے فرق کو اپنے انداز میں تقویت دیتا ہے، اور دوسری جانب معاشرتی بہتری کے سبب اس فرق کو بارہا چیلنج بھی کرتا رہتا ہے۔

اس موضوع پر کمیونسٹ ماہرین کا دلچسپ فلسفہ  یہ ہے کہ خواتین کی زبان اکثر معاونت، ہمدردی اور پرورش کے احساسات سے منسلک ہوتی ہے، جب کہ مردوں کی زبان زور آوری، غلبہ اور اختیار کے اعترافات اور اظہار سے جڑی ہوتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ آزاد اور خوشحال معاشروں میں زبان میں فرق کے حوالے سے جینڈر کا پہلو غیر موثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ افریقی امریکیوں کے حوالے سے یہ بات میرے ہی تجربے کی نفی ہے، لیکن یہاں ایک جواز یہ ہوسکتا ہے کہ اچھے معاشرے میں خاص کمیونیٹیز کے حالات، ترقی پذیر معاشروں سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ اور امریکی سیاہ فام کمیونٹی ایک خوشحال معاشرے میں شاید اسی صورتحال سے دوچار ہے۔

ماہرین نے بہر حال زبان، جنس اور طاقت کے درمیان متحرک تعلق کو بڑی حد تک کامیابی سے دریافت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زبان کے تغیر اور فرق کو سمجھنے کے لیے جینڈر ایک اہم عنصر ہے، اور یہ بھی کہ جینڈر، زبان، لب و لہجے اور اُٹھان (پچ) کے درمیان اس پیچیدہ تعلق کا بہتر اور سائنسی مطالعہ، جدید لسانیات کے ماہرین اور زبان پر تحقیق کرنے والوں کے لئے اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں