تحریر: کنول زہرا
سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی کرنے والا ہندوستان ایک بار پھر نسلی فسادات کا شکار ہے، بھارتی ریاست منی پور میں 3 مئی سے انٹرنیٹ بندش اور کرفیو نافذ ہے جبکہ پولیس، بی ایس ایف اور فوج کے 50 ہزار اہلکار تعینات کرنے کے باوجود مودی سرکار حالات قابو پانے میں ناکام ہے۔ ہندو عیسائی جھڑپوں میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ خانہ جنگی کا بہانہ بنا کر مودی سرکار منی پور کے قبائلی تشخص کو ختم اور انتہا پسند ہندو نظریے کو مسلط کرنا چاہتی ہے۔
منی پور کے حالیہ نسلی فسادات پہلی بار رونما نہیں ہوئے ہیں بلکہ 1972 میں منی پور کو ریاست کا درجہ دیا گیا، جس کے پہلے وزیراعلی محمد علیم الدین پنگل مسلمان تھے، مگر پی جے پی اقتدار کے آنے کے بعد یہاں کے مسلمانوں کے لئے زندگی کو تنگ کردیا گیا، اسی جبر کی ایک کڑی 2018 میں نظر آتی جب جنگل کے ذخائر اور زمین پر قبضے کے الزام میں 400 مسلمان گھروں کو بے دخل کردیا گیا، ہندوستان میں جاری اس نسلی فسادات کی وجہ منی پور سمیت آسام اور ناگاہ لینڈ میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، گجرات میں مودی کی بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، بمبئی میں مسلم خاندانوں کو گھر نہ دینے کی خبریں ریکاڈر کا حصہ ہیں، 2019 میں مودی سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف شہریت ترمیمی بل منظور کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط پوری دنیا کے سامنے ہے، آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے جو ایک اور جبر کیا ہے یہ اقدام بھی ہندو توا سامراج کی ایک اور کھلی دلیل ہے۔
منی پور میں حالیہ نسلی فسادات انتہائی بد ترین ہیں، جس کا بھارتی سرکار نوٹس نہیں لے رہی ہے، مودی سرکار کی خاموشی بھارتی اقلیت کو لاشوں میں بدل رہی ہے، کیا عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر کوئی لب کشائی کریں گئیں؟۔