تحریر: حمیرا نزیر
جس دیس کے چپے چپے پر
افلاس آوارہ پھرتا ہو
جو دھرتی بھوک اگلتی ہو
دکھ درد فلک سے گرتا ہو
جہاں بچے اور بوڑھے بھی
آہوں پر پالے جاتے ہوں
جہاں سچائی کے مجرم بھی
زنداں میں ڈالے جاتے ہوں
اس دیس کے رہنے والوں پر
آواز اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر ایک لیڈر کو
سولی پہ چڑھانا لازم ہے
یہ کالم لکھتے وقت میرے دل کے حالات کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہی نہیں نہ ناممکن ہے۔ اسی ملک کا ایک طبقہ جو روٹی کو ترستا ہے وہ چیخ چیخ کر انصاف کا طلبگار ہے مگر خواب غفلت میں سوئی یہ شاہانہ عوام انہیں جانوروں سے بدتر سمجھ کے پس پشت ڈال دیتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ ان کی داد رسی کے لیے بھی کوئی زات موجود ہے۔
غربت، جو ہمارے لئے بظاہر ایک معمولی مسئلہ ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو کیوں کی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے بلکہ اگر کہا جائے کئی لوگوں کے لیے ان کی زندگی ہی مسئلہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بے روزگاری کے بڑھتے طوفان نے نجانے کتنی ہی زندگیاں نگل لی ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے
غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کو بیچ ڈالا، اپنی بچیوں کو مار ڈالا اور خود بھی خودکشی کر کہ اس آزمائشی دنیا سے رفو چکر ہونے کی کوشش کی۔
اس بے حس دنیا میں ہر شخص بھوکا ہے کوئی اقتدار
کا طالب ہے تو کوئی شہرت کا بھوکا کوئی دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنا سب کچھ بیچ دینے پر آمادہ، تو کوئی نشے کا بھوکا۔ قحط و الرجال بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، وقت کے پیمانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بے قدری کا گلہ کر رہے ہیں۔ ہم زوال کی آخری حد سے بھی آخری حد تک پہنچ گئے ہیں جہاں ہر طرف آواز آتی ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ افسوس ہے ان وقت کے یزیدوں پر جو مزدور کی مزدوری کھا جاتے ہیں اور مزدور کے پسینے سے اپنے محل تعمیر کرتے ہیں۔ ان محلوں کی ایک ایک اینٹ ان سے یہ گلہ کرتی ہے کہ آخر کب تک چیرو گے ایک غریب کا پیٹ؟ ہمارے معاشرے کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ امیر طبقہ غریب کا استحصال کرکے امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ ہمارا غریب طبقہ ناانصافیوں کا شکار ہو کر غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
ہمارے اس معاشرے میں مہنگائی اور مزدور کی اجرت کا حساب لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو وقت کی روٹی غریب کے خون پسینے سے بھی آگے نکل گئی۔ آۓ دن پیش آنے والے خودکشی کے واقعات اس بات پہ مہر سبت کرتے ہیں کہ ہمارے نااہل حکمران غریب کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے۔ ایک غریب باپ کی بیٹیاں اس کی چوکھٹ پر بیٹھی کنواری رہ جاتی ہیں کیونکہ آج کل رشتہ کرنے سے
پہلے کردار یا تربیت نہیں بلکہ جہیز کا حجم پوچھا جاتا ہے۔ میں سوال کرتی اپنے اس معاشرے سے جس نے جہیز جیسی لعنت کو متعارف کروا کہ بیٹیوں کا زندہ دفن کرنے کا رواج دوبارہ سے ڈال دیا کیونکہ ایک غریب باپ اپنی بیٹی کو نہ کھانا دے سکے اور نہ اس کی شادی کروا سکے تو اس کو زندہ دفن کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔
روز میں کے بڑھتے ہوئے جرائم چوری، ڈاکہ زنی، مختلف برائیوں کا پھیلنا یہ سب غربت کی وجوہات ہیں۔ کیونکہ اگر
ایک پڑھے لکھے انسان کو بھی دو وقت کی روٹی نہ ملے تو اس کا رجحان جرائم کی طرف ہو جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے
ہی لوگ اس دو وقت کی روٹی سے تنگ آکر منشیات اور جوئے جیسی لعنت میں ملوث ہو جاتے ہیں اور گھر کی
عورتوں کو فاقہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جب یہی عورتیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے جب کسی کے گھر کام کرنے
نکلتی ہیں تو نہ تو زمانہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور نہ ہی اس گھر کے مالک اس کو انسان کی نظر سے دیکھتے
ہیں۔ کام سے تھکی ہاری عورت چند پیسوں کے عوض اپنی ساری توانائیاں مالک کے گھر کام میں صرف کر بھی دے تو سوائے گالیوں کے اسے کچھ نہیں ملتا۔ نہ جانے دن میں کتنے ہی واقعات ایسے سننے کو ملتے ہیں جس میں گھر کی
ملازمہ کے ساتھ زیادتی کے واقعات سرفہرست ہوتے ہیں۔ جب یہی عورتیں گھر کو واپس لوٹتی ہیں، نشئی شوہر کی
مارپیٹ ان کی منتظر ہوتی ہے۔
اس اس غربت میں جہاں بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں وہاں سب سے بڑا مسلہ چائلڈ لیبر کا ہے۔ معصوم ننھے بچے
مزدوریاں کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے اور بچپن میں ہی بھری بھر کم کام کرکے مزدوری
کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ انہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کا جنم ایک ایسے گھرانے میں ہوا جہاں ان کے بچپن
کے بجائے ان کے سر پر دو وقت کی روٹی منحصر ہے۔ کبھی اس کام کرنے کے لیے کارخانوں میں چوڑ دیا جاتا ہے تو
جہاں اسے رگڑائی کٹائی جیسے مشقت طلب کام کرنے پڑتے ہیں جو اس کے معصوم اور کلیوں جیسے جسم کی برداشت
سے بھی باہر ہیں اور کبھی اس کو کسی گھر میں ملازمت کے لیے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ہم، جنہیں رب خداوندی نے اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا جس کی تخلیق کا واحد مقصد درد دل کے سوا کچھ نہیں۔
بزدل تو بہت دور کی بات، ہم نے اپنے ہی معاشرے میں امیر غریب کے فرق کو کم کرنے کے بجائے، مسلسل بڑھاوا دیا۔ سوچئے ذرا کل اگر خداوند تعالیٰ روز محشر آپ سے یہ سوال کرے کہ میرا فلاں بھو کا بندہ تمہارے در پہ آیا تھا
اور تم نے اسے بھوکا کیوں لٹا دیا تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدر کا گوشت
شاہراوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے