تحریر: مطیع اللہ جان
فلم کے آخری منظر میں ہیرو کو لازمی مرنا ہے، ہیرو کو اُس کے انجام تک پہچانے کے لیے پوری فلم کا اسکرپٹ پیچھے کی طرف لکھنا ہوگا، ملک کی سیاسی فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا جا چکا ہے، اِس کے آخری منظر میں بچہ جمہورا نے آنسو بہاتی سپریم کورٹ کی بانہوں میں دم توڑنا ہے، پارلیمنٹ نے جنرل باجوہ کو دل پر پتھر باندھ کر ایکسٹینشن دی تو دس ماہ کے لیے عیسی کو کیا پڑی ہے کہ نظام کے گناہوں کی صلیب اُٹھا کر شاہراہ دستور پر لڑکھڑاتا پھرے۔
انجام ناگزیر ہے مگر عوامی توقعات کے کوہ ہمالیہ سے گرے کوہ پیما کا نشان بھی بمشکل ہی ملتا ہے، اسی لیے تین گھنٹے کی فلم میں سسپنس، جذبات، گیت اور کچھ لڑائی مار کٹائی فلم بینوں کو غیر محسوس طریقے سے آخری منظر تک پہنچا دیتی ہے، یہ وہ منظر ہوتا ہے جو سب سے پہلے فلمایا جا چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی باقی فلم کا اسکرپٹ بھی تیار ہوتا ہے، ہماری اِس سیاسی فلم میں ہیرو اور ولن کے کردار اور ڈائیلاگ بھی لکھے لکھائے ہیں اور اس فلم کی انفرادیت یہ ہے کہ ناظرین آخر دم تک یہ طے نہیں کر پائینگے کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون، جہاں ملکی مفاد کے نام پر 25 کروڑ عوام کے مینڈیٹ کو 2018 میں چُرایا گیا وہاں اب ملکی مفاد میں ہی عوام کا مینڈیٹ برآمد کر کے 2024 میں لوٹانے کا وعدہ ہے۔ اور جب چوری کر پرچہ کٹا ہی نہیں تو مال مسروقہ برآمدگی کے بعد انتخابی سپرداری کا تکلف کیسا۔ مکینوں کو تھانیدار کے ہاتھوں مینڈیٹ واپس دینے کا ایک سہارا مل رہا ہے تو اس کے لیے انتخابی عمل کی سپرداری کا تردد کیسا-
اس فلم کی کامیابی کے لئیے پروڈیوسر کو کچھ کالے بکروں کی قربانی دینا ہوگی جن میں نقوی، باجوہ اور فیض شامل ہیں، ان بکروں نے جوانی میں پورا ملک اپنی سینگوں پر اُٹھا رکھا تھا،ان کی قربانی بلوچستان سے اُٹھنے والی تحریکِ پاکستان کے قانونی وارثوں کی پیشہ وارانہ انا اور تاریخ میں بقا کے لیے لازم ہے۔ ایسی قربانی سے فلم میں ایسی جان پڑ جائیگی کہ تین گھنٹے کی فلم کے آخری منظر میں بچے جمہورے کی موت پر رونے کی بجائے ناظرین گھروں کو روانہ ہوتے فلم پروڈیوسر کے بکروں کے اُس سوپ کی تعریف کر رہے ہونگے جو انہیں وقفے میں مفت پلایا گیا تھا۔ وہ سب بھول جائینگے کہ کس طرح ڈائیلاگ بازی اور کرداروں کی اداکاری نے انہیں انجام کا آکر دم تک پتہ نہیں چلنے دیا۔ جذباتی مناظر دیکھ کر لوگ رو بھی دیتے ہیں یہ جانے ہوئے کہ یہ فلم ہے حقیقت نہیں۔
آج کی فلم کے اسکرپٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو مضبوط ہوتا دیکھ کر عمران خان کو استعمال کیا اور اقتدار پر بیٹھا دیا، پھر خان کو مضبوط ہوتا دیکھ کر اُسے اتار کر نواز شریف کو واپس لے آئے، مگر عسکری لیباریٹری کا وائرس عوام میں پھیل چکا تھا اور اس کی ویکسین دستیاب ہی نہیں تھی، طے ہوا کہ مرض کے مقابلے کے لیے الیکشن کے روز لوگوں کو گھروں میں محدود کر دیا جائے اور الیکشن ہی نہ کرائے جائیں۔ یہ فلم کا آخری سین تھا جو پہلے ہی فلمبند ہو چکا تھا۔ اس آخری منظر سے پہلے عوام کو معاشی ریلیف دینا لازمی مگر امریکہ اور عرب ممالکُ کی سرمایہ کارانہ امداد کے بغیر ناممکن تھا،
عقلِ کل ہونے کے وہم، وسائل کی خوشبو اور طاقت نے اسٹیبلشمنٹ کو معیشت کے تمام شعبوں میں خندقیں کھودنے کی جانب مائل کیا، جمہوری امریکہ اور غیر جمہوری عرب ممالک سے اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے وعدوں کو تحفظ دینے کے لیے اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر فیصلہ ہوا کہ فوری الیکشن ملکی مفاد میں نہیں۔
ایسے میں کیا آج کے افتخار محمد چودھری آج کے جنرل کیانی کیساتھ ویسا ہی ‘تعاون’ کرینگے؟ آثار تو دکھتے ہیں، پہلے مشرف کالا بکرا بنا اور آج فیض۔ فیض عدالت آگیا تو ہم جیسے موبائل پکڑ کر خود کو جمہوریت کا سپاہی ثابت کرنے میں جُت جائینگے، قاضی کے جانثار بے شمار ہو جائینگے۔ فیض آباد دھرنے کمیشن کی رپورٹ مظاہر نقوی کا انخلا، نواز شریف کی اہلیت کیس کا شور شرابا یا پھر کوئی اور بڑی پھلجڑی یا خدانخواستہ کچھ اور، اس سب میں 8 فروری بھی گذر جائیگا اور اُس سے پہلے چند ارب ڈالر کا سرمایہ آ گیا تو کہا جائیگا جمہوریت سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا، سیاست نہیں ریاست بچاؤ، ملک ہے تو آئین ہے وغیرہ وغیرہ
سرکاری ملازموں کو این آر او الیکشن کمیشن نے لگایا، چیلنج پی ٹی آئی نے کیا، لاہور کے عدالتی گلوبٹ نے الیکشن کمیشن کی گاڑیوں کی ونڈ سکرینیں ہی توڑ دی، اب انٹرا کورٹ اپیل ہوگی یا سپریم کورٹ سو موٹو نوٹس لیگی اس سے پہلے ایسے ہی گلو بٹ نقوی نے مشرف کیس کی عدالت پر ڈنڈے برسائے تھے۔ ہو گیا ہے اور وہ خود مائنس ہونے کے بعد جلد الیکشن میں دلچسپی کھوچکا ہے۔ ڈنڈا پیر کا چہرہ بہت پہلے کا دیکھا ہوا ہے اس لیے اب گھونگھٹ اُٹھانے کی بھی ضرورت نہیں۔