تحریر: محمد سمیع شہزاد
اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کو اسلامی ممالک سے اپنا وجود تسلیم کروانے کی ایک وجہ تو اپنے ناجائز وجود کو بالاخر مسلم ممالک میں جائز حیثیت دلا کر مسلمانوں سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کی پیش بندی بھی ہے ،جس کا ذکر قرآن شریف میں او ر تورات میں موجود ہے، دوسری طرف مخفی طور پر اس تابوت سکینہ کی تلاش بھی ہے، جس کے ذریعے سے یہودی اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
تابوت سکینہ کیا ہے؟ اور اس میں کیا کیا چیزیں تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کی نئی نسل ناواقف ہے جوکو کہ تمام مسلمانوں کے لئے کمحہ فکریہ ہے۔ بائبل کے مطابق اس میں حضرت یوسف کا جسد مبارک اور بائبل ہی کی بعض روایات کی رو سے ہڈیاں اور کپڑے تھے اور اسے حضرت موسی مصر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ قصص الانبیاء میں ہے کہ اس متبرک صندوق میں تورات کا اصل نسخہ حضرت موسی و ہارون کے عصاء و پیرہن اور من کا مرتبان محفوظ تھے۔
اس تابوت کے بارہ میں اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے: سورۃ البقرۃ : 248 ‘اور انہیں ان کے نبی نے کہا کہ اس (طالوت) کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق (تابوت) آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت (ایک تسلی) ہے اور آل موسى و آل ہارون نے جو کچھ چھوڑا تھا اس میں سے باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہونگے۔ بے شک اس میں تمہارے لیے یقینا ایک نشانی ہے،اگر تم مؤمن ہو۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ صندوق اللہ تعالى کی طرف سے طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے کی نشانی تھا۔ اللہ تعالى کی طرف سے ایک تسلی تھی۔ اس میں موسى وہارون کی آل کے ترکہ کی باقی ماندہ اشیاء تھیں۔
حضرتِ سیّدُنا آدم عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد اللہ عَزّوجَلّ نے اُنہیں شَمْشاد نامی درخت کی مضبوط لکڑی سے بنا ہوا اور سونے (گولڈ) کا کام کیا ہوا 3 گز لمبا اور 2 گز چوڑا ایک ’’انوکھا صندوق‘‘ عطا فرمایا جو کہ منتقل ہوتا ہوا حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام تک پہنچا۔
حضرتِ سیّدُنا آدم عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کو جب صندوق ملا تو اُس میں تمام انبیائے کِرام عَلَیھِمُ السَّلام اور اُن کے مکانات کی تصویریں تھیں سَیّدُ الاَنبیا (حضرتِ محمد مصطفےٰ) صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کے مُقدَّس مکان کی تصویر ایک سُرْخ یاقوت (یعنی لال قیمتی پتّھر) میں تھی۔ اُس تصویر میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز کی حالت میں تھے جبکہ آس پاس صحابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرّضْوان موجود تھے۔ یہ تصویریں قُدرتی تھیں۔ انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں۔ جب حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کو یہ صندوق ملا تو آپ اُس میں اپنا خاص سامان رکھنے لگے۔ اس کے علاوہ صندوق میں، توریت شریف کی تختیوں کے ٹکڑے ،جنّتی لاٹھی، حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا لباس اور حضرتِ سیّدُنا ہارون عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا عِمامہ اور اُن کی لاٹھی حضرتِ سیّدُنا سلیمان عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی انگوٹھی اور بنی اسرائیل پر نازل ہونے والا وہ برتن بھی تھا، جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا، حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام جنگ میں اِس صندوق کو آگے رکھتے تھے، اِس سے بنی اسرائیل کو سُکون نصیب ہوتا تھا بنی اسرائیل کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اِس صندوق کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے تھے دُشمنوں کے مقابلے میں اِس کی بَرَکت سے فتح پاتے تھے ،جب آپس میں اِختِلاف ہوتا تو صندوق سے فیصلہ کرواتے، صندوق سے فیصلے کی آواز آتی تھی، بلائیں اور آفتیں صندوق کی برکت سے ٹل جاتی تھیں۔ اسرائیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کیلئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔ جب بنی اسرائیل اللہ عَزّوجَلّ کی بہت زیادہ نافرمانی کرنے لگے تو اُن پر یہ غَضَب ہوا کہ قومِ عَمَالِقہ کے بہت بڑے لشکر نے حملہ کر کے اُن کی بستیاں تباہ کر ڈالیں اور یہ انوکھا صندوق بھی اُٹھا لے گئے۔ اِس کے بعد قومِ عمالِقہ نے صندوق کو گندی جگہ رکھ کر بے اَدَبی کی، جس کے نتیجے میں وہ مختلف بیماریوں کا شِکار ہوگئےاور اُن کی 5بستیاں ہلاک ہوگئیں، اُنہیں یقین ہوگیا کہ یہ سب مُقَدَّس صندوق کی بے اَدَبی کا نتیجہ ہے، چنانچہ اُنہوں نے صندوق ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف چھوڑ دیا، وہ صندوق چار فرشتوں کی نگرانی میں اُس وقت کے نبی حضرتِ سیّدُنا شَمْوِیل عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام تک پہنچا، یوں بنی اسرائیل کو دوبارہ یہ عظیم نعمت حاصل ہوگئی۔اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بعد ازاں رومیوں نے حملہ کیا اور اسے ایک بار پھر نشانہ بنایا۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے قریب حضرتِ سیّدُنا اِمام مَہْدی رضی اللہ تعالی عنہ جب تشریف لائیں گے تو وہ اس صندوق کو فلسطین کی ’’طَبَرِیَّہ‘‘ نام کی ایک مشہور جھیل (لیک) سے نکالیں گے۔جبکہ ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہ تعالی عنہ اُسے تُرکی (ٹرکی) کے شہر اَنْطاکیہ (انٹاکیا) کی کسی غار سے نکالیں گے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سرزمین کو فتح کیا تو رومیوں کے کلیسا سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، جہاں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی گئی۔ یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں ان کا معبد تھا۔ مسلمان اس جگہ کو اپنے لئے مقدس جانتے ہیں، مگر یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔ وہ ہیکل کی ایک پس ماندہ دیوار میں واقع دروازے کے متعلق بھی سمجھتے ہیں کہ یہ قیامت سے قبل ان کے بادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، البتہ مسلم روایات کے مطابق یہودیوں کا بادشاہ دجال ہے۔