قصہ ایک زیرِ عتاب کتاب کا

0
50

تحریر: طارق شہزاد چودھری

حالیہ دنوں میں حامد میر صاحب کے جیو نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں حامد میر سے بات کرتے ہوئے حکومتی سینٹر خلیل طاہر سندھو نے قائد اعظم کی جس کتاب پر پابندی کا ذکر کیا ہے۔ 

یہ وہی کتاب ہے۔ اس میں شامل محترمہ بے نظیر بھٹو کا پیش لفظ جس کی بنیاد پر حکومتی ذرائع نے اس پر سینسرشپ عائد کی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اس میں ضیاء الحق کی آمریت کا ذکر کن الفاظ میں کیا ہے خود ملاحظہ فرمائیے۔

حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقاریر پاکستان کے فکری، نظریاتی اور اخلاقی تشخص کی بنیاد ہیں۔ ان تقاریر میں نہ صرف آزادی کے بعد کے قومی خد و خال کی وضاحت موجود ہے بلکہ ایک ایسی ریاست کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے جو عدل، مساوات، رواداری اور اسلامی اصولوں پر قائم ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ان تقاریر کو ایک “فکری ورثہ” قرار دیتے ہوئے ان کی اشاعت کو قومی فریضہ سمجھا۔ ان کے پیش لفظ میں قائداعظمؒ کی نصف صدی پر محیط سیاسی زندگی، ان کی غیر معمولی بصیرت، بے داغ کردار اور بیماری کے باوجود قومی خدمت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قائداعظمؒ نے مختلف طبقات-طلباء، فوج، تاجر، وکلاء اور عوام-سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے فکری خاکے کو تشکیل دیا، اور ان کی تقاریر میں وہ رہنما اصول موجود ہیں جو آج بھی قومی شعور کو بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

محترمہ نے خاص طور پر خواتین کے کردار کو اجاگر کیا، اور قائداعظمؒ کی محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ عوامی اجتماعات میں شرکت کو اس بات کی دلیل قرار دیا کہ خواتین کو صرف چار دیواری تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے 28 مارچ 1948ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین نئی نسل کی معمار ہیں اور انہیں قومی تعمیر میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کی روشنی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے تقاریر کی اشاعت کا اعلان کیا، اور کہا کہ یہ اردو، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں عوام تک پہنچائی جائیں گی تاکہ ہر پاکستانی اس فکری ورثے سے روشنی حاصل کر سکے۔

تاہم، ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ان تقاریر پر سنسرشپ عائد کی گئی۔ محترمہ نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تقاریر میں وہ تصورات تھے جو آمریت کے خلاف تھے، اسی لیے انہیں روک دیا گیا۔ ان کے پیش لفظ کو بھی متنازع قرار دے کر کتاب کی اشاعت محدود کر دی گئی، جو فکری آزادی اور تاریخی شعور کے خلاف ایک اقدام تھا۔ محترمہ نے اس سنسرشپ کو مسترد کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے اصولوں کو حرزِ جاں بنانے کا عزم ظاہر کیا، اور کہا کہ ان تقاریر کو عوام تک پہنچانا ان کا قومی فرض ہے۔

یہ تمام بیانات نہ صرف ایک سیاسی موقف ہیں بلکہ ایک فکری اعلان بھی، جو پاکستان کے نظریاتی تشخص، عوامی شعور اور تاریخ کے ساتھ دیانت داری کا تقاضا کرتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا پیش لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر کو دبانے کے بجائے انہیں عام کیا جانا چاہیے، تاکہ قوم اپنی اصل بنیادوں سے جڑ سکے۔ یہ وہ فکری ورثہ ہے جسے سنوارنا، سمجھنا اور زندہ رکھنا ہر محقق، صحافی اور سیرت نگار کی ذمہ داری ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں